Saturday 19 July 2025

تحریک حسینی ع کی پالیسی(حکمت عملی)  اور اسٹریٹجی پر ایک نظر

کسی بھی واقعه خاص کر اجتماعی اور دینی تحریکوں  میں جو کلیدی  کردار اپناتا هے جس کی وجه سے اس تحریک  کی اهمیت بڑھتی هے یا گھٹتی هے وه اس کی حکمت عملی  اور اسٹریٹجی هے.تحریک حسینی کی کامیابی کے اسرار و رموز بھی  یقینی طور پر اس کی حکمت عملیوں اور اسٹریٹجیز میں مضمر هے.


تحریر: محمد صادق الجعفری 

کسی بھی واقعه خاص کر اجتماعی اور دینی تحریکوں  میں جو کلیدی  کردار اپناتا هے جس کی وجه سے اس تحریک  کی اهمیت بڑھتی هے یا گھٹتی هے وه اس کی حکمت عملی  اور اسٹریٹجی هے.تحریک حسینی کی کامیابی کے اسرار و رموز بھی  یقینی طور پر اس کی حکمت عملیوں اور اسٹریٹجیز میں مضمر هے. جنهیں  حضرت ابا عبد الله  الحسین ع نے نه صرف تحریک کے آغاز میں اپنایا بلکه امام حسن ع کے زمانه سے آغاز کرچکے تھے  اور عصر عاشور کے بعد پیام آور کربلا حضرت زینب ع نے اسی پالیسی اور اسٹریٹجی کے مطابق تحریک کو جاری رکھا.یهاں پر  پهلے اختصارکے ساتھ پالیسی اور اسٹریٹجی کے فرق کو بیان کرنے کی ضرورت هے.ان  دونوں الفاظ کا مإخذ یونانی هے،اور ظاهری طور پر ان دونوں کا مفهوم ایک جیسا هے .لیکن در حقیقت فرق هے. اسٹریٹجی  کا مطلب وه  بنیادی اور اساسی اهداف جسے طولانی  مدت میں حاصل کرنا  مقصود هوتا هے اسے معین کرنا یعنی اس تحریک کے آغاز اور انجام کے لئے جامع پلاننگ کا نام  اسٹریٹجی  هے. اور اس کی دوسری خصوصیت یه هے که یه جامع اور عام هوتی هے  یعنی ایسا پروگرام  که جو لوگ ابھی دنیا میں نهیں آئے هیں، ان کو بھی ملحوظ نظر رکھ کر پالیسی ترتیب دی جاتی هے.  جبکه پالیسی وسائل  کی درجه بندی کے  ذریعےمقاصد حاصل کرنا هے.حکمت عملی اور پالیسی مناسب محل اور موقع کو دیکھ کر اپنائی جاتی هے جبکه  اسٹریٹجی آخری  هدف اور مقصد غائی  هوتی هے جو حسینی تحریک میں احیائے دین   تھا اور اسی کو مدنظر رکھتے هوئے  جب امام ع مدینه سے مکه  کی جانب نکلے تو  احیائے دین کے لئے تین  اسٹریٹجیز  معین کرکے نکلے تھے.(۱) یزید کی بیعت هر گز نهیں کرنی کیونکه قرآن، احادیث اور عقل سلیم  کے بالکل بر خلاف تھی  (۲)یزیدیت کی ماهیت اور حقیقت  کو بر ملا کرنا تا که روز قیامت تک کوئي بھی یزید جیسے شخص کی بیعت نه کرے.(۳) همیشه اصلاحی سوچ رکھنا کیونکه جب تک حسینیت باقی هے یزیدیت بھی باقی  رهے گی.حسین ع اور یزید کی جنگ عصر عاشور کے بعد ختم هوگئی تھی. لیکن حسینیت اور یزیدیت کی جنگ رهتی دنیا تک جاری رهے گی .کیونکه یه حق اور باطل قوتوں کی جنگ هے .جیسا که زیارت عاشورا میں بیان هوا هے: وثَبّت‏لى قدم صدق عندك مع الحسين واصحاب الحسين.   اس سے معلوم هوتا هے که یه دو قوتیں ازل سے ابد تک رهیں گی.

موسی وفرعون شبیر ویزید ..........این دو قوت از حیات  آمد پدید

یزیدیت کو شکست سے دوچار کرنے کا  واحد راسته  اصلاح امت هے .امام حسین ع جس امت کی اصلاح چاهتے تھے اس کا یه مطلب هر گز نهیں که لوگوں کو صرف  ایک جگه یا ایک پلیٹ پر جمع کیا جائے. بلکه اصلاح امت   کا مطلب  ایک ایسی امت تشکیل دینا  هے جو احساس ذمه داری رکھتی هو.عقیدے کو صرف فکر وخیال میں پروان چڑھاتی نه رهے بلکه عملی میدان   میں  ثقافتی ،علمی ،تربیتی ،سیاسی اور اقتصادی  ذمه داریوں کو بطور احسن انجام دینا بھی حسینیت اور تحریک حسینی  کی  اسٹریٹجی   اور اصلاح امت  کهلاتا هے.اور اس  اسٹریٹجی  تک پهنچنے کے لئے مناسب پالیسی اور حکمت عملی بنانا در حقیقت  رزم کربلا میں شریک هونا هے. همیں بھی چاهئے کربلا که جو  معارف الهی   اور امت سازی  کے ليے ایک بهترین درسگاه هے . اپنی پالیسی اور  اسٹریٹجی  اسی مکتب کے نظریے سے هم آهنگ بنائیں .تا که  ندائے یا لیتنا کنا  معک کی حقیقت میں بدل   جائے.  اور ناصران دین وملت میں شامل هوسکیں.کربلا کے دو رُخ هے .ایک بزم دوسرا عزم کربلا ئی اور  اصلاح شده امت والوں کے عزم  اور بزم دونوں حسینی ع پسند هونا چاهیے.

 عاقلانه پالیسی
 زمان اور مکان کا انتخاب 

کسی بھی با مقصد تحریک    کے لئے سب سے اهم چیز تحریک شروع کرنے کا  زمان اور مکا ن هے .تاریخ میں بهت ساری تحریکوں کی شکست یا اس کے نام ونشان مٹنے کی ایک وجه یهی هے که آغاز تحریک  کا زمان اور مکان مناسب انتخاب نهیں هوا .لیکن تحریک   حسینی ع  کا انتخاب زمان ومکان  کے اعتبار سے مناسب وقت اور موقع  پر کیا  گیا تھا جس کی وجه سے روح عاشورا دنیا کے مختلف معاشروں میں زنده و جاوید  بنی هے .کیونکه اگر یهی  تحریک   مدینه یا مکه میں انجام دیتے تو  نه صرف اتنی عظیم قربانی رائیگان هوجاتی بلکه عین ممکن تھا که لوگ آپ ع کے اقدامات کو ناپسند بھی کرتے . حادثه سقیفه کے بعد اهل بیت  ع کو دیوار سے لگانے کی پوری کوشش کی  گئی تھی کیونکه مدینه  کی اکثریت وهی لوگ تھے جنهوں نے  سقیفه  پر خاموشی اختیار کرلی تھی اور امیرالمؤمنین ع کے دور خلافت میں ناکثین سے جنگ کرنے کی دعوت دی تو  بهت کم افراد امام  ع کی نصرت کے لئے پهنچے تھے .علاوه برآں سیرت شیخین ان کے لئے سرخ لکیر تھی اور حکومتی اداروں میں مروان اور ولید بن عتبه جیسے  بنی امیه  کے غداروں  کا مکمل کنٹرول تھا.  اسی طرح مکه کے بزرگان اور قبائلی سردار وں نے نه صرف آپ ع کا ساتھ نهیں  دیا بلکه اس کے بر خلاف  آپ ع کو تحریک   چلانے سے منع کرتے رهے.اس کے علاوه مکه کے پرانے باشندوں نے  پرانی دشمنی کی بناء پر  آپ ع کا ساتھ نهیں دیا .اسی طرح یمن اور بصره کے حالات بھی  اتنے اچھے نهیں تھے .بصره پر ابن زیاد کا قبضه تھا .لهذا ایسے حالات میں کوفه جانا هی معقول راسته تھا کوفه کی جانب امام کومجبورا  لایا نهیں گیا تھا بلکه  اپنے اختیار سے خود آئے تھے .کیونکه کوفه واحد جگه تھی جهاں پر تحریک   آغاز کرنے کے لئے ماحول  تیار تھا.دوسرے شهروں کی نسبت کوفه میں بهتر مواقع فراهم هوسکتے تھے  کیونکه اهل کوفه کی اکثریت آپ ع کو جانتے تھے. 

رفتار وگفتار عاقلانه.
(الف)نفسیاتی جنگ میں شکست تسلیم نه هونا.

کسی بھی جنگ وقتال میں طرف مقابل کا سب سے بڑا هتھیار نفسیاتی  دباؤ بڑھا نا هوتا هے.تاکه عقیدے کے کمزور لوگ جلد اپنی شکست تسلیم کرلیں .اهل کوفه کی بڑی تعداد دشمن کی اس چال کو سمجھنے سے قاصر تھی اسی وجه سے عام حالات میں امیرالمؤمنین ع اور امام حسن ع کا ساتھ دیتے  لیکن میدان جنگ میں دشمن کی نفسیاتی جنگ میں همیشه شکست کھاتے رهے. اسی نفسیاتی جنگ کی وجه سے جنگ صفین اور امام حسن ع کے دور میں معاویه کو  ظاهری  کا میابی ملی تھی .اور جب تحریک   حسینی ع شروع هوئی تو یزید نے بھی ابن زیاد کے ذریعے  اسی نفسیاتی پهلو سے خوب استفاده کیا .اور  حضرت مسلم کو گرفتار کیا .لیکن کربلامیں امام حسین ع  نے اس نفسیاتی جنگ میں بھی دشمن کو شکست سے دوچار کیا .بنی امیه کے پروپیگنڈے کی وجه سے کچھ لوگ تذبذب اور تشویش  میں تھے تو امام ع نفسیاتی  وار کرتے هوئے یوں مخاطب هوئے  ایها الناس اسمعوا  قولی....انا ابن بنت رسول الله ص.میں نے امام ع کے خطبات اور کلمات میں  نهیں دیکھا که امام ع اپنا تعارف کراتے  وقت یه کها هو که میں علی ع کا بیٹا یا حسن مجتبی ع کا بھائی هوں .بلکه همیشه خودکو فاطمه زهرا ع اور نبی اکرم ص سے منسوب کرتے نظر آتے هیں.بلکه اس سے بڑھ کر آپ ع نے حضرت علی ع کو اخا رسول(رسول الله کا بھائی) کهه کر یه  بتانا چاها که جو کچھ اهل شام نے ان کے ساتھ سلوک کیا تھا وه بھی ناحق  اور مجرمانه عمل تھا . کیونکه اهل شام  اور اکثر کوفه والے حقیقتا  امام حسین ع  کو باغی اور اسلام کے خلاف قیام کرنے والا تصور کرتے تھے اور قربۃ الی الله امام سے جنگ کرنے آئے تھے .لیکن جب امام ع نے اپنا حسب نسب بتایا تو لوگ سوچنے پر مجبور هوگئے  اس کا فائده اتنا ضرور هوا که بنی امیه کا مخفی چهره بے نقاب هوگیا .اور اس سلسلے میں امام ع نے دوسرا تدبیر جو استعمال کی فرمایا: اگر تم لوگوں کو میری باتوں پر یقین نهیں هوتا هے جو پیغمبر اکرم ص نے علی ع اور حسنین ع کے بارے میں بتایا تھا  جو اصحاب زنده هیں  جیسے جابر . ابوسعید خدری . سهل بن سعد. زید بن ارقم .انس بن مالک و...ان سے پوچھ لیں  .کیونکه بنی امیه نے  صحابه کی طرفداری کی  آڑ میں لوگوں کو دھوکا دے رکھا تھا .خلاصه الکلام یه که امام نے لوگوں سے اتمام حجت کرتے هوئے  یه پیغام  دیا که میں کیوں قیام کر رها هوں ؟تحریک   حسینی کے فلسفه سے لوگوں کو آگاه کرتے هوئے  بنی امیه کے مذهبی اعتقادات جو نه پیغمبر ص سے لئے هوئے هیں. اور نه هی اصحاب پیغمبرص سے  بلکه مستعمرین کا اسلام هے حقیقی اور آسمانی اسلام سے دور کا بھی واسطه نهیں  .اسی لئے آپ ع نے فرمایا تھا .وعلی الاسلام السلام اذا بلیت القوم مثل یزید.. 

(ب) وعظ ونصیحت 

تبلیغ اور موعظه اسلام کے پیغام پهنچانے کا اهم ترین وسیله رها هے اور پوری تاریخ اسلام میں یه مشاهده هوتا هے جب بھی تبلیغ کم رنگ هوئی  یا  اسے اهمیت نه دی  گئی تو اسلام نے بهت نقصان اٹھایا کیونکه هم نے  دشمن کے لئے میدان خالی کردیا هے.کربلا کی پالیسی میں تبلیغ اور موعظه ضروری  عناصر  میں سےتھے.اسی لئے  خروج از مدینه سے قبل امام حسین ع سے اتنی احادیث نقل نهیں هوئی هے جتنی خروج  ازمدینه سے عصر عاشور تک بیان هوئی هیں. اسی تبلیغ کا نتیجه تھا  که زهیر ابن قین جو عثمانی مذهب اور حر ریاحی جیسا  عمر سعد کا کمانڈر امام ع کے ساتھ مل گئے .اسی طرح امام ع عمر سعد ،شمر  اور ان جیسے دیگر شقی انسانوں  کو کئی بار بلاکر سمجھانے کی کوشش کرتے رهے. صبح عاشور تک امام ع کے تین بڑے  توانا خطیب   حبیب ابن مظاهر ،مسلم بن عوسجه اور زهیر ابن قین تبلیغ پر نکلے اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتے رهے جس کے نتیجے میں بهت سارے افراد امام ع کی نصرت  کو آئے اور بهت سارے لوگ عمر سعد سے الگ هوکر چلے گئے تھے. امام ع اپنے خطبات میں یوں ارشاد فرماتے هیں: ایها الناس اسمعوا قولی ولا تعجلوا حتی اعظکم بما هو حق لکم.  اسی طرح زیارت ناحیه میں فرماتے هیں: ود عوتٍ الی الله باالحکمة والموعظةالحسنه .امرتُ باقامة الحدود  ونهیت عن الخبائث  والطغیان   عنصر تبلیغ کی اهمیت کےلئے اتنا کافی هے که تبلیغ کے بغیر یه انقلاب اور تحریک   هر گز کامیاب نهیں هوتی اسی لئے امام ع اپنے ساتھ بچے خواتین کو ساتھ لائے تھے تا که اپنی شهادت کے بعد  پیغام تحریک    دنیا کے گوشه وکنار  لوگوں تک پهنچا سکیں. 

(ج) فطرت انسانی کی بیداری 

مذکوره مراحل کے ذریعے کچھ لوگ پھر بھی هدایت پانے سے محروم هوتے نظر آئے تو امام ع نے اپنے نورانی بیانات کے ذریعے لوگوں کے ضمیر وجدان کو جھنجوڑا   تاکه لوگوں میں شعور وبصیرت  پیدا هو.اور حقیقی دوست و دشمن کی پهچان کر سکیں.امام ع کے گوهر بار کلمات سے یه واضح هوتا  هے که آپ ع اهل کوفه کی عدم بصیرت اور گذشته زمانه سے عبرت نه لینا  .دوست اور دشمن کی درست تشخیص نه کرنے سے نالاں تھے.   یهی وجه تھی که آپ ع نے  هر موڑ پر یهاں تک که عصر عاشور تک ایک طرف جنگ  عروج پر تھی  تو دوسری طرف آپ ع لوگوں کو ضمیر اور وجدان سے رجوع کرنے کی  تلقین کرتے هوئے فرماتے هیں : لوگو تم بهتر جانتے هو که میں کون هوں  میرا حسب نسب کیا هے.مجھے قتل کرنے کا عذاب کیا هوسکتا هے ؟ جب امام ع کے نورانی کلمات  اعداء کی صفوں میں اثر کرنے لگے تو ایک بار پھر عصر جاهلیت  زنده هوا اور امام ع کے خطبے میں خلل ‌ڈالنے لگے تاکه امام کی باتیں کوئی نه سن سکے . اس وقت امام نے  ایسا لهجه استعمال کیا  جو امام نے اپنی   پوری زندگی میں استعمال نهیں کیا تھا آپ ع نے فرمایا: اے ابوسفیان کے پیروکارو  اے شیطان کی اطاعت گزارو فاسق فاجر ظالم منافق سفیه فرزندان نبوت کے قاتل لوگو تم لوگوں کے شکم لقمه حرام سے بھر چکے هیں اور تم لوگوں کے دلوں پر مهریں لگی هوئی هیں اس لئے تم لوگ هدایت پانے کی صلاحیت  کھو چکے هو.   

خودی اور غیر خودی کی شناخت  (شناخت عاقلانه)

زمانے کی حالت کچھ ایسی هو گئی هے که آسانی کے ساتھ سچ اور جھوٹ.نیک اور بد  خودی اور غیر خودی میں فرق ڈالنا اتنا آسان نهیں رهاکیونکه اهل حق وحقیقت همیشه اقلیت جبکه اهل باطل همیشه اکثریت میں رهے هیں.لهذا باطل طاقتوں کی همیشه کوشش یهی رهی هے که اهل حق کو صفحه هستی سے  محو کیا جائے اگر  یه ممکن نه هو تو ان کے حق  میں تحریف اور جدیدیت  پیدا کریں تاکه اصل اور خالص پیام کا اثر کم هو جائے.اُنهی مسائل میں سے ایک پیام  تحریک   عاشورا هے .اس تحریک   کے پیام کو مٹانے میں تین گروهوں  نے سرتوڑ کوششیں کیں.(۱) مستشرقین(۲) مستغربین (۳) مستعَمَرین. ان تینوں کے اهداف ایک هیں.اور صورت و قالب مختلف مستشرقین نظریه پرداز هیں،  اسلامی  جهاد جیسے مقدس مشن کو سخیف اور غیر منطقی قرار دیکر اسلام کو نظریاتی شکست دینے کی ناکام کوشش کرنے کی غرض سے یه بات مشهور کردی که  الاسلام دین الحرب.   والرسول رسول السیف . جبکه اسلام میں  جهاد اور قتال میں فرق هے .  جهاد کا دروازه همیشه کھلا هے  جیسے جهاد علمی ،ثقافتی ،اخلاقی ،و..جبکه قتال اور جنگ آخری حربه هےجو کمی مستشرقین کے نظریلت میں ره گئی تھی ان کو ماڈرن مستغرب مسلمانوں نے پورا کیا اسی لئے نت نئی بدعتیں اور عقائد ونظریات میں تحریف کا آغاز کیا   جبکه مستعمرین ان دونوں کے اختلاط کا نتیجه هے .جنهوں نے مستشرق اور مستغرب کے مسخ شده اسلام کو عملی جامه پهنایا جسے مختلف تنظیموں، گروهوں اور افراد کی صورت میں دیکھا جاسکتا هے.مستغربین اور مستعمرین دو ایسے پر هیں جن کے ذریعے سے مستشرقین اپنے مقاصد کی جانب  پرواز کر تے هیں .مستعمرین میں سے ایک وه  دوست نما دشمن هے جو امام ع کی محبت کی آڑ میں  امام ع کے مقصد تحریک   کو هدف بناتے هیں .اور یهی سب سے خطرناک دشمن هے  کیونکه امام حسین ع کے دشمن تین طرح کے هیں.

(الف) وه لوگ جنهوں نے امام ع کے ساتھ جنگ کرکے بهترین مخلوق  خدا کوشهید کردیا  .یعنی ان  کے جسم اور روح کے اتصال کو ختم کردیا . یه لوگ گرچه  فی نفسه بهت بڑےظلم کے مرتکب هوئے لیکن هر ذی روح نے موت کا مزا چھکنا هے شهید نه بھی کرتے تو بھی هر حال میں موت  آنی تھی.

(ب)  وه لوگ جنهوں نے امام ع کے آثار مٹانے میں کو ئی کسر نهیں چھوڑی  روضه مبارکه کو آگ لگانے سے لیکر دریائے فرات کا رخ  روضه مبارکه کی طرف موڑنا  .یا صدام جیسے قسی القلب شخص  گولیوں کے ذریعے سے روضه اقدس  کا  شهید کرنا .یا عزاداری اور زیارت سے روکنا  اور طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرنا . اعداء جتنی نام ویاد حسین ع مٹانے کی کوشش کرتے اتنا لوگوں کے دلوں میں جوش وجذبه اور اهل بیت ع کی محبت دلوں میں رسوخ کرجاتی تھی اور جب یه اپنے اهداف میں (ج) کامیاب نه هوسکے تو یهیں سے دشمن کی تیسری قسم پیدا هوگئی جسے هم مستعمرین کا نام  دیں گے.جو مذکوره دونوں  قسم سے کهیں زیاده خطرناک هیں.یعنی ایسا دشمن جو عاشورا کے چهرے کو خدشه دار بناتا هے .عاشورا  کی یاد تو منائیں گے مگر روح عزاداری کے بغیر .کربلا کی عظیم قربانی کو رونے پیٹنے میں منحصر کرنا  اور امام ع کو شهید اشک و فغاں بنا دیا  .یه لاشعور دوست جن سے امیر المومین ع  .امام حسن اور امام حسین ع  بھی نالاں تھے .ان تینوں دشمنوں کا سلسله همیشه سے چلا آرها هے اور چلتا رهے گا .تحریک کربلا کی خصوصیت یهی تھی  دوست اور دشمن کی صفوں کو با لکل الگ کردیا .امام حسین ع نے شب عاشور اس لئے مهلت مانگی تاکه کوئی عدو ،احباب کی صف میں نه رهے  اور رات کی تا ریکی میں جدا هوجائے اسی لئے امام ع نے فرمایا: جو جانا چاهتا هے وه چلا جائے . اس کے بر خلاف  عاشور کے دن اس لئے صدائے استغاثه بلند کی اور لوگوں کو اپنی طرف بلایا  تاکه کوئی محب، اعداء  کی صف میں نه ره جائے .اگر هم   بھی اپنی صفوں سے ان کو  الگ نه کریں تو وهی مصیبت جو اهل  کوفه وشام پر آئی هم پر بھی آسکتی هے.امام حسین ع اپنی تحریک    کے   اهداف کو بیان کرتے هوئے فرماتے هیں: کیا تم نهیں دیکھتے هو حق پر عمل نهیں هو رها هے اور باطل سے روکا نهیں جا رها هے .اس سے یه سمجھ میں آتا هے امام ع کی بڑی  اسٹریٹجی  حق اور باطل کی شناخت کے بعد حق پر عمل کرنا اور باطل سے سد باب کرنا هے.

امام ع کی تحریک کی ایک  اهم ترین حکمت عملی یهی تھی که حقیقی دشمن کے چهرے کو بے نقاب کیا جائے. 

صبر و مقاومت  عاقلانه

قرآن مجید کی آیات اور تاریخ  کی روشنی میں  انبیاء اور اولیائے کرام کی سب سے بڑی خصوصیت یهی تھی که مصائب اور مشکلات میں صبر وبردباری سے کام لیتے تھے.اور یهی صبر اهداف الهی کے حصول میں سب سے زیاده مؤثر بنتا تھا.امام حسین ع  چونکه تمام انبیاء کے وارث تھے  اسی لئے صبر کی ایسی مثال قائم کی  که  عقل درک کرنے سے عاجز رهتی هے اور ایسا صبر جسے صبر جمیل کا عنوان ملا   .کیونکه تاریخ میں کسی نے نه ایسی سختیاں جھیلی هیں اور نه صبر کا  اس جیسا کوئی نمونه ملتا هے.حمید بن مسلم جس نے واقعه کربلا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نقل کرتا هے: الله کی قسم حسین ابن علی ع کے علاوه کسی ایسے شخص کو میں نهیں جانتا  جسے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا .اولادیں  اور اصحاب شهید هوچکے تھے لیکن پھر بھی وه  ایک مضبوط چٹان کی مانند تھے . ماتھے پر هر گز شکن  تک نهیں پڑا تھا .اور حمله آور هوکر دشمن کو یوں  پراکنده کرتے جیسے ٹڈیاں صحرا میں پراکنده هوتی هیں.  مقاومت اور صدق قدم کا ایسا بے مثال  کارنامه انجام دیا که قرآن مجید ایسی صفات کے مالک کے بارے میں یوں نقل کرتا هے : الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ لا يَنْقُضُونَ الْمِيثاقَ   .و بَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ.   

خون او تفسیر این اسرار کرد .....ملت خوابیده را بیدار کرد
نقش الا الله بر صحرا نوشت.....صدر عنوان نجات ما نوشت