Sunday 20 July 2025

تحریک کربلا میں جوانوں اور نوجوانوں کا کردار

اس میں شک نہیں کہ کربلا میں موجود جوانوں اور نوجوانوں کے کردار نے  امام عالی مقام کے قیام  کوجو رنگ و بو  دیا ہے وہ اپنی  جگہ بے نظیر  اور مثالی ہے، خون اور آگ کے درمیان شمس امامت کے گرد گردش کرتے ان جوان ستاروں  نے اپنی روشنی کے ذریعہ عاشورا کے پیغامات کو  تاریخ بشریت کے اوراق میں جاوداں بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔


تحریر: محمدعلی جوہری

  تاریخ انسانیت کے تمام ادوار میں رونما ہونے والی تمام اصلاحی تحریکوں   کی کامیابی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو  معلوم ہوتا ہے  ا ن کی کامیابی  کے   پیچھے  جس عنصر کا اہم کردار رہا ہے  وہ جوانوں کا  مثالی کردار ہے، اور اسی  نکتے کے پیش نظر   دین مبین اسلام  میں    جوانوں کو جو  اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں ،  یہی  وجہ ہے  کہ  اسلامی تعلیمات  میں  انہیں اہمیت  کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے  چنانچہ اسی پس منظر میں دیکھا جائے تو   حضرت رسالت مآب9 نے   سب سے پہلے  جس طبقے سے اپنی  دعوت کا آغاز کیا تھا  وہ عمار اور مقداد جیسے جوانوں پر مشتمل  طبقہ تھا  اور انہوں  خندہ پیشانی اور بڑی فراخدلی کے ساتھ بانی اسلام  حضرت ختمی مرتبت9  کی  دعوت پر لبیک کہتے ہوئے  اسلام  کی نورانی تعلیمات  کو  سینے  سے  لگانے کے ساتھ اسلام کے آفاقی پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا  اور ان کی زحمتوں اور محنتوں کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات کی قندیلیں پورے جزیرہ العرب میں   روشن ہوئی،  اور انہی جانثاروں کی  کاوشوں کے  نتیجے میں تعلیمات اسلامی کے فروغ   کا  نورانی سفر  پورے آب و تاب  کے ساتھ  جاری  رہا  ، یہاں تک کہ  28 صفر سن گیارہ   ہجری  کو  وہ دل گداز لمحہ آن پہنچا  جس کی وسعتِ تلخ، صدیو ں کے غموں پر  بھاری تھی  اوراس تاریخ کو  سرکار دوعالم  حضرت ختمی مرتبت9 دعوت   حق پر لبیک کہتے ہوئے  امت مسلمہ کے درمیان سے چلے گئے ۔    پیغمبر اسلام9  کےوصال کے  بعد اسلامی سماج کے   حالات یکسر   بدل گئے   اور آنحضرت 9 کی رحلت کے  بعد مقام پرست  عناصر نے   موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے  خلافت اسلامیہ   پر اپنا قبضہ جمالیا  اور پیغمبر اسلام 9کے حقیقی جانشین   سےحق خلافت  چھین کر  انہیں خلافت سے  دور رکھنے  میں کامیابی حاصل کی  اور یہاں  سے تاریخ اسلام نے ایک نیا رخ اختیار کیا،   چنانچہ    خلافت پر قابض لوگوں نے خلافت حاصل کرتے  ہی   اسلامی تعلیمات میں انحرافات  کے ساتھ  خلافت اسلامی  کو ملوکیت میں بدلنے کے  لئے   زمینہ سازی   کی  جو آگے  جاکر  یزید جیسے  شرابی  اور دشمن اسلام کی حکومت پر  منتج ہوئی  جس نے خلافت  پر براجمان ہوتے ہی اسلامی تعلیمات کو مٹانے کا مکمل اراده کیا  اور اسلام  دشمنی  میں "  لعبت بنو هاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل"  ( ) جیسے شعار کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرتے ہوئے تعلیمات اسلام کے خلاف  اعلانیہ طور پر جنگ کا آغاز کیا   اور ایسے میں اسلام کے حقیقی وارث حسین بن علی7 کے سامنے  یزید کے خلاف  قیام کے سوا کوئی دوسرا  راستہ نہیں  بچتا تھا  ، لہذا آپ نے  یزید کی بیعت کوشریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے  ۲8 رجب ۶۰ھ کو اپنے   قیام کے ذریعے تحریک کربلا کا آغاز کیا  اور  ظاہر سی بات ہے کہ  اس تحریک  کو کامیابی سے  ہمکنار کرنے کیلئے  امام حسین 7  کو اعوان و انصار کی صورت میں جانثاروں کی ضرورت تھی   تاکہ ان کی فداکاری اور جانثاری کے سائے میں اس تحریک کو مثمر ثمر بنایا جاسکے،  چنانچہ امام7  کی قیادت میں تحریک کربلا کو  آگے بڑھانے میں امام 7 کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے  جن افراد نے شروع سے ہی   ساتھ دینے کا عزم کیا   ان میں جوانوں کی اکثریت پیش پیش تھی۔ چنانچہ یزید کی جانب سے  مطالبہ بیعت کے بعد جب آپنے  اپنے ایک   خطبے میں  اپنی تحریک کا ساتھ دینے کی  دعوت  دیتے  ہوئے  ارشاد فرمایا :من کانَ باذِلًافینا مُهْجَتَهُ وَ مُوَطِّناً علَی لِقاءِ اللَّهِ نَفْسَهُ فَلْیرحَلْ مَعَنا فَانَّنی راحِلٌ مُصبحاً انْ شاءَ اللَّهُ تَعالی"( ) "جو چاہتا ہے اپنے خون کو میری راہ میں بہائے اور خدا وند عالم کی بارگاہ میں حاضر ہو نے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ پائے  تو وہ ہمارے ساتھ آئے  انشاءاللہ میں صبح سویرے ہی روانہ ہونے والاہوں۔" تو آپ کے اس خطبے کے بعد  سب سے پہلے جن لوگوں نے  اپنی آمادگی کا اعلان کیا  وہ بنی ہاشم کے جوا ن اور نوجواں تھے،  جن میں حضرت عباس علمدار7 اور حضرت علی اکبر7 سمیت  فرزندان امام حسن 7، فرزندان عقیل   اور نسل عبد اللہ  سےفرزندان  حضرت جعفر طیار شامل تھے، جو سب  کے سب جوان تھے، چنانچہ اسی ضمن  میں  حضرت امام رضا7  سے منقول ہے، آپ نے  ریان ابن شبیب سے  مخاطب ہوکر فرمایا:  اے شبیب کے بیٹے!  کربلا  میں  بنی ہاشم کے  اٹھارہ   افرادشہید ہوئے جو روئے زمین  پر  اپنی مثال آپ  تھے اور ان میں سالار شہیداں حضرت اباعبداللہ  الحسین 7کے علاوہ سبھی  جوان تھے   اور  بنی ہاشم کے علاوہ  معرکہ کربلا  میں  شہید ہونے والے جان نثاروں  کی اکثریت جوانوں پر مشتمل تھی۔

اس میں شک نہیں کہ کربلا میں موجود جوانوں اور نوجوانوں کے کردار نے  امام عالی مقام کے قیام  کوجو رنگ و بو  دیا ہے وہ اپنی  جگہ بے نظیر  اور مثالی ہے، خون اور آگ کے درمیان شمس امامت کے گرد گردش کرتے ان جوان ستاروں  نے اپنی روشنی کے ذریعہ عاشورا کے پیغامات کو  تاریخ بشریت کے اوراق میں جاوداں بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یوں تو  تحریک کربلا  کو جاویداں  بنانے میں   لشکر امام  حسین 7میں موجود ہر فرد  نے اہم کردار ادا کیا ہے تاہم    جوانوں  نے جو کردار ادا کیا ہے  وہ  ہر اول دستے کا ہے، تحریک کربلا کے آغاز سے لیکر عصر عاشورا   تک    دین   اور شریعت  کی پاسبانی  کیلئے  جوانوں کا جذبہ شہادت    اپنے آپ میں  بے نظیر ہے  جو انسان کے فکر و نظر اور کردار و عمل کی دنیا کو یکسر بدل    دیتاہے ۔  چنانچہ بنی امیہ کے  حکمرانوں نے  امت  مسلمہ  کے جوانوں کی   انفرادی اور اجتماعی زندگی کو   جہالت  کے جن خطوط پر استوار  کرنے  کی کوشش کی تھی،  کربلائی  جوانوں نے  ان  خود ساختہ خطوط کو ختم کر کے   پھر سے  اسلامی  خطوط  کو اجاگر کرتے ہوئے  اسلامی تعلیمات کے ان تمام  رشتوں کو  جو فراموش کر دیا  گیاتھا، ازِ سر نو قائم  کردیا ۔ 

کسی بھی  تحریک کی کامیابی کے لئے   اس  تحریک  میں شامل  افراد  کا کردار   اور ارادہ بہت  اہمیت  رکھتا ہے   اسی لئے   انہیں مضبوط  کردار  بلند  ارادے کا  حامل ہونا چا ہئے  تاکہ  مخالفین کی شدید سے شدید کاروائیاں اور حملے اسے سرنگوں نہ کر سکیں بلکہ وہ اپنے پیروکاروں کے دلوں میں بھی جرأت و عزیمت اور صبر و ثبات کا ویسا ہی جذبہ پھونک سکے جس سے وہ خود سرشار ہیں ۔ یہ تو عام تحریکوں کا معاملہ ہے – تحریک کربلا کی  کامیابی کے لئے تو اس سے کہیں زیادہ  ارادے  کی بلندی اور کردار کی مضبوطی کی ضرورت تھی  تاکہ  یہ تحریک قیامت  تک  دنیا میں پائی جانے والی ہر برائی سے نبرد آزما  ہوسکے  چنانچہ اس ضمن میں جب ہم  کربلا کے جوانوں کے کردار  کی بلندی کو دیکھتے ہیں تو ہر جواں  اپنے دائرہ میں حسین7 نظر آتا ہے  اور  کسی بھی مرحلے میں دشمن کے ساتھ  مصالحت کی پالیسی اختیار نہیں کرتا  اور  ہر  قسم کی  پیشکش کو جو  بظاہر مشکلات و مصائب سے نجات  پر مشتمل ہے ،ٹھکرا کر  ذلت  کی زندگی پر عزت کو موت کو ترجیح دیتے ہوئے  خالق کربلا کے   نعرے "  ہیہات  منا الذلہ" ((    کی عملی تفسیر کرتا ہوا نظر آتا ہے   ، کربلا کا ہر جواں   دعوت   دین کے   بنیادی اصولوں   پر صحیح شکل و صورت میں اپنا راستہ بناتے ہوئے اس  طرح چلتا ہے  جس طرح ایک ندی پہاڑوں کی چٹانوں، وادیوں اور میدانوں میں اپنا راستہ بناتے ہوئے چلی جاتی ہے اور حالات کی تبدیلی نہ تو اس ندی کی ہیئت کو تبدیل کر پاتی ہے اور نہ اس کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے سے روک سکتی ہے۔ 

سخت سے سخت مصائب ومشکلات میں بھی جوانان کربلا کا  دل مطمئن   ہے جبکہ دوسری  جانب دشمن اسلام انکے خلاف   ہر قسم کے حربے آزمانے پر  تلا ہوا ہے  تاہم    انکے  ارادے  اتنے  بلند  ہیں  کہ  ہر مرحلے پر صبر و استقامت سے کام  لیتے  ہوئے  مخالفت کے طوفانوں اور انتہائی نامساعد حالات میں پہاڑ کی طرح قائم رہے ۔ عام طور پر انسان کو  مغلوب  کرنے کا  آخری  حربہ  موت سے ڈرانا  ہے  تاکہ موت کی دھمکی سے اسکے ارادے  کو متزلزل   کرکے اس کو اسکے اہداف سے  منصرف  کیا جاسکے  لیکن    جوانان کربلا کے  عزم  اور ارادے سے   خود موت کے  ماتھے پر پسینہ جاری  ہے ، کربلائی جواں کے نزدیک موت  شہد سے زیادہ شیریں ہے ((   اور   اسے یہ خوف نہیں کہ موت اس پر آگرے یا وہ موت پر جاگرے(( ۔ کربلائی جوانوں   کے کردار کا  ایک  اور رخ قول و عمل میں ہم آہنگی ہے ، قول و عمل کی اتنی مکمل اور حسین ہم آہنگی دنیا میں  ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتی کیونکہ   کردار کا عملی نمونہ ہی دل کی دنیا میں انقلاب برپا کرتا ہے ،    چنانچہ   تحریک کربلا کے جوانوں نے اپنے  قول و فعل کی ہم آہنگی سے گرتی ہوئی انسانی قدروں کو بام عروج تک پہنچاہے، جس نے اپنا  جداگانہ تشخص قائم رکھا ہے،  چودہ صدیاں گزرنے کے بعد مومنین کے دلوں  میں موجود حرارت  اس کا منہ بولتا ثبوت ہے   ۔ 

اس میں  شک نہیں  کہ کربلا کے میدان میں جوانوں کا کردار  قرآن کریم کی  آیت کریمہ : مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ  ( )  کی عملی تفسیر  ہے جنہوں اپنی  جان کو دین کی راہ میں قربان کرتے ہوئے   اللہ  کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو عملی جامہ  پہنایا  ہے  اور  قرب الہی کے  حصول کیلئے شہادت کا راستہ اپنانے کے ساتھ  اپنے خون سے شجر اسلام  کی آبیاری کرتے ہوئے رہتی دنیا تک کیلئے حق کی راہ میں  قربانی  کا طریقہ  کار بتادیا  ہے  ۔جی ہاں  یہ  جوانان  کربلا  کی قربانی اور ایثار کی ایسی مثالیں ہیں  جو مکتب عاشورا کے  علاوہ   کسی اور  مکتب میں نہیں  ملتی  ۔    انکا کردار   ہر دور اور ہر زمانے میں ان تمام  جوانوں اور نوجوانوں  کیلئے مشعل راہ   ہونے کے ساتھ  عملی نمونہ بھی  ہے جو دعوتِ حق کا پرچم  سر بلند   کرنا چاہتے ہیں ، ان تمام جوانوں  کےلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے ہر مرحلہ میں قدم قدم پر جوانان کربلا  کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی طلب کرنے  کے ساتھ اپنی زندگیوں کو انکے  عملی کردار کے سانچے میں ڈھالیں اور اپنا طریقِ کار، اس طریق کار کی روشنی میں وضع کریں جو  خالق کربلا  حسین بن علی‘ کے  قیادت میں  کربلائی جوانوں نے اپنایا تھا ، جس پر چل کر ایک ایسا انقلاب برپا کیا  جاسکتا ہے   جس سے  موجودہ  دور کی یزیدیت  کی  تاریخ  ،  تہذیب  اور تمدّن کے دھارے کو  بدل کر رکھ دیا جاسکتا ہے،

 بقول شاعر:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
 
حوالہ جات:
1-    قرآن کریم
2-    کلیات اقبال، بانگ درا جواب شکوہ 
3-    ابن شعبه حرانى، «تحف العقول‏» 
4-    ابن طاووس، «اللهوف »  
5-    -ابن نما حلى، «مثير الأحزان‏»
6-    سيد هاشم بحرانى «مدينة معاجز الأئمة الإثني عشر» 
7-     علی دوانی «سیمای جوانان درقرآن و تاریخ اسلام »
8-    محمد نجفي يزدي «اسرار عاشورا»