تحریر: سید عباس حسینی
اربعین عربی زبان میں چالیس کے عدد کو کہا جاتا ہے۔ فارسی اور اردو میں اسے چہلم کہتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کے درمیان یہ رسم ہے کہ کوئی شخص دنیا سے چلا جائے تو اس کے چالیس روز بعد اس کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی، فاتحہ خوانی اور مجالس وغیرہ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی جہاں اور بہت ساری خصوصیات ہیں، وہیں ان کا یہ خاص امتیاز بھی ہے کہ ہمارے تمام اماموں میں سے صرف آپ علیہ السلام کے لیے اربعین کی زیارت کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور اس زیارت کی خاص فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اربعین کے موقع پر آپ کی زیارت پر جانے کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔ اسی طرح سے آپ کی زیارت کے لیے پیدل جانے کے حوالے سے مختلف روایات آئی ہیں جو اس کام کے اجر وثواب کو مختلف انداز میں بیان کرتی ہیں۔
آپ علیہ السلام کی شہادت چونکہ 10 محرم الحرام 61 ہجری میں ہوئی تھی، اس لحاظ سے 20 صفر 61 ہجری کو آپ کا اربعین بنتا ہے۔ آپ کے چاہنے والے اس وقت سے لے کر اب تک ہر سال اس مخصوص تاریخ کو آپ کا اربعین مناتے ہیں اور اس عظیم قربانی پر آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔دنیا بھر سے لاکھوں زائرین 20 صفر کی تاریخ کو کربلا کا رخ کرتے ہیں اور آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں جو ایک نیا سلسلہ دیکھنےمیں آیا ہے وہ یہ ہے کہ اربعین حسینی کے موقع پر دنیا کا سالانہ سب سے بڑا مذہبی اجتماع کربلا میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس اجتماع کے دوران لاکھوں زائرین بصرہ، بغداد اور دوسرے عراقی شہروں خصوصا نجف سے کربلا کا فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں اور پیادہ کربلا پہنچ کر امام عالی مقام کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں اور اظہارِ عقیدت کرتے ہیں۔ اس دوران عراقی شہریوں کی طرف سے زائرین کی پذیرائی اور دل کھول کر خدمت قابلِ دید ہے جس کی مثال ملنا محال ہے۔
چالیس کے عدد(اربعین) کا راز
علم الاعداد کے ماہرین نے چالیس کے عدد کی کچھ خصوصیات بیان کی ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی تائید بہت سارے دینی معاملات اور احکام سے بھی ہوتی ہے۔ مثلا قرآن کریم کے مطابق اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو پہلےتیس دن کے لیے کوہ طور پر بلایا پھر مزید دس دن کے اضافے کے ساتھ چالیس دن مکمل کیے۔ (اعراف:142) قرآن کریم کے مطابق انسان چالیس سال کی عمر میں رشداور بالندگی تک پہنچتا ہے۔(احقاف:15) یا جب اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو صحرائے سینا میں بھٹکنے کی سزا دی تو اس کے لیے چالیس سال کی مدت مقرر کی۔ (مائدہ:26) اسی طرح روایات میں آیا ہے کہ جو شخص چالیس دنوں تک اپنے آپ کو اللہ کے لیے خالص کر لے اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری ہوں گے۔ جو شخص بھی چالیس احادیث حفظ کرلے قیامت کے دن فقیہ اور عالم محشور ہوگا۔ بہت سارے انبیاء جن میں سے ہمارے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ بھی ہیں چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ بعض گناہوں کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ ان کی وجہ سے چالیس روز تک عبادت قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح نماز شب میں چالیس مومنوں کے لیے دعا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ بعض روایات کے مطابق جس شخص کے جنازے میں چالیس مومن اس کی مغفرت کے لیے دعا کریں اللہ تعالی اس کو بخش دیتا ہے۔ روایات کے مطابق مسجد کے اردگرد چالیس گھروں تک مسجد کے ہمسائے شمار ہوتے ہیں۔ بہت ساری دعاوں کے بارے میں چالیس روز تک مسلسل پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔ بعض پھلوں کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ ان کے چالیس روز تک کھانے کے مختلف اثرات ہیں۔ اس طرح کے اور بھی بہت سارے موضوعات روایات میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ علم الاعداد کے ماہرین بھی اس عدد کی مختلف خصوصیات بیان کرتے ہیں۔
روایات کے مطابق جب بھی کوئی مومن بندہ دنیا سے جاتا ہے تو زمین اس کی موت پر چالیس دنوں تک گریہ کرتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے خصوصی طور پر روایات میں آیا ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد چالیس دنوں تک آسمان آپ پر گریہ کناں رہا۔ راوی نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: آسمان کا گریہ کیا تھا؟ آپ نے جواب میں فرمایا: چالیس روز تک سورج سرخی کے ساتھ نکلتا رہا اور اور سرخی کے ساتھ ڈوبتا رہا۔ اسی طرح روایات کے مطابق آپ کی شہادت کے بعد آسمان، زمین،سورج اور فرشتے چالیس دنوں تک آپ کے غم میں اشک بہاتے رہے۔
اربعینِ حسینی کی اہمیت
امام عسکری علیہ السلام کی مشہور حدیث جس میں آپ نے مومن کی پانچ علامات بیان کی ہیں اس حدیث میں اربعین کے موقع پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو مومن کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: (عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم) اس روایت کے مطابق روزانہ 51 رکعت نماز(واجب اور مستحب نمازیں ملا کر)، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، سجدے میں سر خاک پر رکھنا، نماز میں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا اور اربعین کی زیارت ایک مومن کی علامات ہیں۔
شیعوں کے نزدیک اربعینِ حسینی کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے چونکہ تاریخ اور روایات کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام اور اہل بیت کرام کی مخدرات عصمت جنہیں واقعہ کربلا کے بعد اسیر بنا کر کوفہ و شام لے جایا گیا تھا وہ رہائی کے بعد اسی تاریخ کو واپس کربلا پہنچے تھے اور انہوں نے امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی پہلی بار زیارت کی تھی۔ تواریخ کے مطابق یہ قافلہ اپنے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا کٹا ہوا سر بھی واپس لایا تھا، جسے کربلا ہی میں اسی تاریخ کو آپ کے جسد اطہر کے ساتھ دفن کیا گیا۔
اربعین حسینی کا پہلا زائر
تاریخ کے مطابق اربعینِ حسینی کا پہلا زائر صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ہیں آپ اپنے غلام عطیہ کے ساتھ 20 صفر 61 ہجری کو کربلا میں وارد ہوتے ہیں۔ اس وقت جابر کی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ غلام کے مطابق جس وقت جابر کربلا پہنچے تو پہلے فرات میں غسل کیا، پھرقبر امام حسین علیہ السلام پر آئے اور عطیہ سے کہا: میرا ہاتھ قبر پر رکھ دو۔ کچھ دیر بعد جابر بے ہوش ہو کر قبر پر گر پڑے۔ عطیہ نے چہرے پرپانی ڈالا اور جابر ہوش میں آئے۔ جابر نے تین مرتبہ بلند آوازسے کہا: یاحسین علیہ السلام۔ اور پھر کہا: "حَبیبٌ لا یُجیبُ حَبیبَه." دوست، دوست کو جواب نہیں دے رہے۔ امام عالی مقام اور دوسرے شہداء کی زیارت کرتے ہیں۔ آپ کی موجودگی میں ہی امام زین العابدین علیہ السلام اور دوسرے اسیران اہل بیت شام سے کربلا پہنچتے ہیں جہاں سب مل کرشہداء کی زیارت بھی کرتے ہیں اور ماتم اور گریہ وزاری بھی کرتے ہیں۔
پیادہ روی کی تاریخ
امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے ایک خصوصیت جو روایات میں ذکر ہوئی ہے وہ پیدل چل کر زیارت کرنے کی ہے۔ اس حوالے سے متعدد روایات ہیں جو اس کام کے بے شمار اجروثواب کو بیان کرتی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام کی روایت کی مطابق "جو بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پا پیاده آتا ہے اس کے ہر قدم پر اللہ تعالی ہزار نیکیاں لکھتا ہے، ہزار گناہ مٹا دیتا ہے اور ہزار مرتبہ اس کے درجات میں اضافہ کرتا ہے۔" سب سے پہلی شخصیت جو پیدل چل کر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے آئی، وہ صحابی رسول جابر بن عبد اللہ انصاری ہیں۔ ان کے بعد بھی دنیا بھر سے عاشقان ِامامت و ولایت آپ کی زیارت کے لیے مختلف زمانوں میں آتے رہے۔ بعض محققین کے نزدیک ائمہ معصومین کے دور میں بھی لوگ دور دراز سے اربعین کے موقع پر آپ کی زیارت کے لیے پیدل آتے تھے۔ لہذا اس لحاظ سے ائمہ کے دور سے ہی یہ سنت چلی آئی ہے۔ بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتوں نے اگرچہ اس راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی بڑی کوششیں کیں، لیکن کسی نہ کسی شکل میں کربلا کی طرف پیادہ روی کا سلسلہ چلتا ہی رہا۔ معتصم عباسی کے دور میں اگرچہ زیارت ابا عبد اللہ سے روکنے کی بڑی کوششیں کی گئیں اور زائرین کے ہاتھ پاوں تک کاٹے گئے، لیکن زیارت کا سلسلہ نہ رک سکا۔
موجودہ دور میں جس شخصیت نے نجف سے کربلا تک پیدل زیارت پر جانے کی اس حسینی تحریک کا آغاز کیا وہ شیخ انصاری(وفات 1864ء) کی شخصیت ہیں۔ آپ کی مرجعیت کے زمانے میں کربلا کی طرف پیادہ روی کا زور و شور سے انتظام ہوتا تھا۔ ان کے بعد کچھ عرصے کے لیے یہ تحریک کم رنگ ہو کر رہ گئی لیکن کتاب مستدرک الوسائل کے مصنف شیخ میرزا حسین نوری(وفات 1902ء) نے دوبارہ اس تحریک کو زندہ کیا۔ ان کے ساتھ ان کے چاہنے والوں کی بھی ایک کثیر تعداد ہوتی تھی جو ایک قافلے کی شکل میں کربلا کی طرف پیدل چلتے تھے۔ مجتہد وعارف بزرگوار میرزا جواد آقا ملکی تبریزی (وفات 1925ء) کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں کئی بار نجف سے کربلا پیدل زیارت کے لیے جاتے رہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے شہید بزرگوار علامہ سید عارف حسین الحسینی(وفات 1988ء) کے بارے میں بھی علماء بیان کرتے ہیں کہ اکثر شبِ جمعہ پیدل نجف سے کربلا امام عالی مقام کی زیارت کے لیے جاتے تھے۔
ان کے علاوہ بہت سارے علماء و مجتہدین کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ کربلا کی طرف پیادہ روی کو انتہائی اہمیت دیتے تھے۔ "اعیان الشیعہ" کے مولف سید محسن امین عاملی(وفات 1952ء) اپنے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ میں دس سال تک نجف میں رہا ہوں۔ اس دوران سال بھر کی خاص مناسبتوں پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر کربلا کی زیارت سے ضرور مشرف ہوتا تھا۔ہم اکثر پیدل کربلا کی طرف چل پڑتے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ جبل عامل اور نجف کے دوسرے طلاب بھی ملحق ہوتے اور ایک قافلہ سا بن جاتا۔ مشہور کتاب "الغدیر" کے مصنف علامہ امینی(وفات 1970ء) کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے کہ اکثر پیدل کربلا جاتے تھے۔ کربلا کے نزدیک پہنچتے ہی ان کی حالت متغیر ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسووں کا نہ رکنے والے سلسلہ شروع ہو جاتا۔ سید محمود حسینی شاہرودی(وفات 1974ء) جو عراق کے مشہور مرجع تھے ،کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ پیدل کربلا جاتے تھے۔ ان کے شاگرد اور عقیدت مند بھی انکے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ چالیس بار پیدل امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے گئے ہیں۔ امام خمینی کے فرزند حاج مصطفی خمینی(وفات1977ء) کے بارے نقل ہوا ہے کہ تمام اہم مناسبات جیسے نیمہ رجب، نیمہ شعبان، روز عرفہ اور مخصوصا اربعین کے موقع پر پیدل نجف سے کربلا جاتے تھے۔ لبنان کے مشہور عالم دین سید موسی صدر(گمشدگی 1979ء) کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ پیدل امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر جانے کا عشق رکھتے تھے۔ ان تمام مجتہدین اور علماء کے علاوہ آیت اللہ میرزا نائینی، شیخ محمد حسین غروی، آیت اللہ ملکوتی، شہید آیت اللہ مدنی اور بہت سارے علماء کے بارے نقل ہوا ہے کہ وہ سال بھر کی مختلف مناسبتوں خصوصا اربعین کے موقع پر کربلا کی طرف پیادہ روی کرتے تھے۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین کے دور میں کربلا کی طرف پیادہ روی پر پابندی لگائی گئی۔ اس کے باوجود عاشقین ابا عبد اللہ خفیہ راستوں سے چلتے ہوئے، راتوں کو سفر کرتے ہوئے اپنے آپ کو اربعین کے موقع پر کربلا پہنچاتے تھے۔ 2003ء میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس تحریک نے مزید زور اور رونق پکڑ لی اور آج یہ اجتماع سالانہ منعقد ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا دینی اجتماع ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اس عظیم اجتماع میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اڑھائی کروڑ تک بھی بتائی گئی ہے۔
آج اربعین کی تحریک ایک عالمگیر تحریک بن چکی ہے جو ظہور حضرت ولی عصر علیہ السلام کے لیے بہترین زمینہ فراہم کر سکتی ہے۔ بقول رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای: اربعین میں مقناطیسِ حسینی کا جاذبہ تمام لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اربعین حسینی، شعائر اسلامی میں سے ہے۔ اربعین کے اس عظیم اجتماع کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہے۔ یہ عشق اور بصیرت کا راستہ ہے۔ اس عظیم اجتماع میں صرف اجسام ایک دوسرے کے قریب نہیں آتے، بلکہ ارواح بھی ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں۔ یہ اجتماع اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی وحدت کا سبب ہے۔