ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے رہنماوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی شدید مذمت کی اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔
ملی یکجہتی کونسل کے رہنماوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ دہشتگردی اور دھماکوں کا دین اسلام سے تعلق جوڑنا ایک گمراہ کن نظریہ ہے۔ ملک کے تمام جید علماء اور مذہبی جماعتیں دہشت گردی کی مذمت میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور کسی بھی بےگناہ انسان کے قتل کو حرام قرار دیتے ہیں۔
دھماکے کرنے والے اللہ اور رسول ّ کے احکامات کی واضح نافرمانی کر رہے ہیں۔ دہشتگردی کا اولین ہدف امت مسلمہ اور مسلمان ممالک ہیں اور یہ تمام کارروائیاں اسلام دشمن قوتوں کی مدد سے اور ان کے مفاد کےلیے کی جارہی ہیں۔
منظم دہشتگردی ریاستوں کے درمیان چپقلش کا نتیجہ ہے اور اس کے لیے مذہب کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی رسومات کی ادائیگی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں مذہبی سرگرمیوں کو محدود کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حکومت کو دہشتگردوں کی حقیقی کمین گاہوں پر فوکس کرنا ہوگا۔
نیشنل ایکشن پلان کو منظور ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس پرعملدرآمد تاحال جزوی اور غیرموثر ہے۔ نیشنل کاونٹر ٹیرارزم اتھارٹی کا وجود عملا نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزیر اعظم حقیقی معنوں میں چیف ایگزیکٹو ہونے کا ثبوت دیں یا ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفی دیں۔
ملی یکہجتی کونسل کے رہنماوں نے کہا کہ آئین پاکستان کی رو سے حکومت کو خود درست خطوط پر دینی تعلیم کا اہتمام کرنا ہوگا اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی درست بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔ لاوڈ سپیکر پر پابندی، درود و سلام اور میلاد کی محفلوں، جلوس ہائے عزا کے خلاف اقدامات اور خطبات جمعہ و مدارس کے خلاف کارروائیاں دہشت گردی کے اصل مراکز سے توجہ ہٹانے کا باعث ہیں۔