انصار اللہ کے افراد اور یمن کی فوج نے سوموار کے دن خبر دی کہ انہوں نے الحدیدہ بندرگاہ کے نزدیک سعودی عرب کی ایک جنگی کشتی کو جس پر ۱۷۲ فوجی سوار تھے میزائل کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ۳ افراد ہلاک ہو گئے ۔
عبد الباری عطوان نے جو دنیائے عرب کا ایک تجزیہ نگار اور بین الاقوامی روزنامے رائے الیوم کا مدیر اعلی ہے یمن میں اس اہم واقعے کی طرف اشارہ کیا ۔
اس نے ابتدا میں لندن میں اقتصاد اور سیاسی علوم کے منی یونیورسٹی کے ایک تجزیہ نگار کی باتوں کی طرف اشارہ کیا کہ جس نے کہا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ آج جس فوج نے بھی یمن پر چڑھائی کی ہے اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے چنانچہ سعودیوں کا یہ گٹھ بندھن بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہے ۔
عطوان نے انصار اللہ کے میزائل کے حملے اور سعودی عرب کی کشتی کی تباہی کو ایک اہم تبدیلی قرار دیا کہ جب اس کشتی پر میزائل لگا ہے تو اس وقت کی تصویروں نے اس سلسلے میں سعودی عرب کی روایت کے جھوٹ کو ثابت کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ خود کش حملہ آور چھوٹی کشتیوں نے اس کشتی پر حملہ کیا ہے ۔
رائے الیوم کے مدیر اعلی نے لکھا ہے کہ اس کشتی کی تباہی چاہے میزائل سے ہوئی ہو یا خود کش چھوٹی کشتیوں سے ، یہ یمن کی جنگ میں ایک فوجی تبدیلی کی علامت ہےاور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یمن کی فوج کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں ،یہ کاروائی تو آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
اس نے ان انتباہات کے بارے میں جو اس میزائلی حملے کے ہو سکتے ہیں لکھا ہے: وہ انتباہ جو یمن کی فوج نے اس حملے کے ذریعے سعودیوں کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ الحدیدہ کی بندر گاہ کہ جس سے یمن کے ۶۷ فیصد تجارتی سازو سامان وارد ہوتے ہیں ، یہ ان کے لیے ایک سرخ لائن ہے ۔
رائے الیوم نے انصار اللہ سے وابستہ ایک اعلی فوجی عہدیدار کے حوالے سے تاکید کی ہے کہ الحدیدہ کا دفاع صنعاء کے دفاع سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ جو پایتخت ہے ، اور انصار اللہ کے اتحادی یمن کے سابقہ صدر کے ساتھ مل کر اس کے دفاع میں جان کی بازی لگا دیں گے تا کہ یہ سعودی اتحاد کے قبضے میں نہ جائے ۔
عبد الباری عطوان نے یمن میں ایک اور واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امریکی بندوق برداروں کی البیضاء کے علاقے میں ھلی برن کی ہمراہی میں القاعدہ کے افراد کے ساتھ مڈ بھیڑ ہو گئی اور امریکی اپاچی ہیلیکاپٹروں کے حملے میں ۴۱ افراد مارے گئے کہ جن میں سے اکثر غیر فوجی اور بچے تھے ۔
وہ لکھتا ہے کہ یہ علاقہ انصار اللہ کی فوج کے قبضے میں ہے ، اور ممکن ہے کہ یہ قتل عام القاعدہ کو امریکہ اور سعودی عرب سے انتقام لینے پر اکسائے ۔