شیعہ مسنگ پرسنز کے ورثاء کی اسلام آباد میں پریس کانفرنس
شیعہ مسنگ پرسنز کے ورثاء کی اسلام آباد میں پریس کانفرنس
شیعہ مسنگ پرسنز کے ورثاء کی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے انہیں حق دفاع دیا جائے اور اگر حکومتی اداروں کے مبینہ الزامات سچ ہوں تو جو بھی پاکستان کے قوانین اجازت دیں، برتاؤ کریں۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد پریس کلب میں بات چیت کرتے ہوئے شیعہ مسنگ پرسنز کے ورثاء کا کہنا تھا کہ وطن عزیز میں جاری دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شیعہ ہیں جن کے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، صحافی، عزاداران اور زائرین الغرض تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شہید کئے گئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات میں سفاکیت کا ایک نمایاں واقعہ آرمی پبلک سکول پشاور کا دلخراش سانحہ ہے جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہماری بہادر افواج نے دہشت گردوں سے نمٹنے کا عزم کیا جو کہ ایک قابل تعریف قدم تھا۔
بد قسمتی سے ایسے میں صرف دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے حکومت کی طرف سے بیلنس کی پالیسی (Balance Policy) اپنائی گئی اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے افراد کو بھی شامل کر کیا گیا جن کا دہشت گردی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کے برعکس ان کی خدمات معاشرے کے لئے نہایت قابل قدر ہیں۔
میں 62 سالہ بوڑھا شخص ہوں میرا تعلق شیعہ امامیہ سے ہے۔ فیصل آباد کے علاقے سدھو پورہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس بیلنس کی پالیسی کا شکار ہونے میں میرے بیٹے راغب عباس خان ثاقب کو 21 ستمبر 2016ء کی رات کو میرے گھر سے C.T.D اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس لوگ گھسے اور اغواء کر لیا اور ساتھ میں ایک لیپ ٹاپ، 2 کمپیوٹرز، ایل سی ڈی، سی ڈیز، فائلز اور 5 موبائل فون ، شناختی کارڈ اور دیگر سامان بھی لے گئے۔