Thursday 28 November 2024

14 August 2023

شام میں داعش کے ذرائع آمدنی بے نقاب

شام میں داعش کے ذرائع آمدنی بے نقاب


اکتوبر 2015ء امریکی کانگریس کی داخلی سلامتی کی کمیٹی نے مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ذرائع آمدنی کی رپورٹ جاری کی، شام میں میڈیا سینٹر نے ان کاغذات کا جانچ پڑتال کی اور ان رپورٹس کے اصل ہونے کے بارے میں تحقیق کی یہ یاد رہے کہ یہ رپورٹ مختلف حصوں میں شائع ہو گی۔
ان رپورٹس کا تجزیہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ داعش جیسی تنظیموں کے آمدنی کے بڑے ذرائع میں  پٹرول اور گیس، اناج، کھادیں، سیمنٹ اور نمک جیسی معدنیات وغیرہ شامل ہیں، اس کے علاوہ تاریخی نوادارات کو بلیک مارکیٹس میں فروخت کر کے پیسہ کمانا ۔
ان ذرائع کے علاوہ ان کے دوسرے ذرائع آمدنی ،فتنہ انگیزی ،چوری، ڈاکہ ،اغواء برائے توان اور خلیجی ریاستوں سے مالی مدد کے علاوہ ٹیکس کی آمدنی ہے۔
نئے ذرائع آمدن میں سے جس کو وہ «کپیٹل منیجمنٹ اینڈ گروتھ» کا نام دیتے ہیں کے تحت مغربی ممالک میں مجرمانہ سرگرمیاں، عام لوگوں سے چندہ حاصل کرنا (جو کہ کل بجٹ کا 2 فیصد بنتا ہے) اور کچھ اسلامی سماجی بہبود کی تنظیموں سے انٹرنیٹ کے ذریعے براہ راست چندہ وصول کرنا۔
1۔ پٹرول کی تجارت:
اس رپورٹ کے اندر داعش اور ان جیسی تنظیموں کے ذرائع آمدنی کی مکمل معلومات اور اعداد و شمار بتائے گئے ہیں، مثال کے طور پر 2016ء داعش کا قبضہ تھا مثال کے طور پر 2016ء کے آغاز میں شام کے اندر تیل کی پیداوار والے 10 فیصد علاقے پر داعش کا قبضہ تھا اسی طرح عراق میں تیل کی پیداوار والے 10 فیصد علاقے پر اور تقریباً 300 تیل کے کنوئوں پر داعش کا قبضہ تھا۔
2015ء میں ان دہشت گرد تنظیموں (بشمول داعش کے ) کی آمدنی ایک بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی جس میں 508 ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم صرف پٹرول سے حاصل شدہ آمدنی تھیو کانگریس کی رپورٹ کے مطابق اسی سال یعنی 2015ء میں ہی ان دہشت گرد تنظیموں کی پٹرول کی یومیہ پیداوار 80 ہزار سے ایک سو بیس (120)بیرل تک پہنچ گئی جس کی مالیت 2 سے 4 ملین ڈالر بنتی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس کام (یعنی تیل کی پیداوار) پر ان دہشت گرد تنظیموں کے 125 سپروائزرز اور 1600 کارکن کام کرتے ہیں،داعش اس تیل کو نہ صرف ترکی کو سمگل کرتی ہے بلکہ ترکی اور شام کی سرحد سے ملحقہ پائپ لائنوں کے ذریعے خاص طریقے سے یورپ میں موجود اپنے کئی تاجروں کو بھی پٹرول سمگل کیا جاتا ہے۔
عراق اور امریکہ میں موجود ان وسائل سے فائدہ اٹھانے والوں کے مطابق داعش کو پٹرول کی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی چالیس سے پچاس ملین ماہانہ ہے۔ 
جس میں تیل کی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ شام کے صوبے دیر ایزور کا ہے۔
2۔ زراعت:
رپورٹ میں موجود اعداد و شمار کے مطابق عراق میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں 4 لاکھ کسانوں کی گندم کی پیداوار سے سالانہ 200 ملین ڈالرز کی آمدنی ہوتی ہے جو کہ داعش کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
دریائے فرات اور دجلہ کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کے بعد داعش نے عراق اور شام کی وسیع زرعی اراضی کو اپنے قبضے میں لے لیا جس کی وجہ سے علاقے میں خوراک کی قلت کا بحران پیدا ہو گیا۔
ابھی تک داعش کو زراعت کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم اپریل 2015ء میں امریکی کانگریس میں پیش کی گئی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف گندم کی پیداوار سے حاصل شدہ سالانہ آمدنی تقریباً 200 ملین ڈالرز ہے، (باوجود اس کے کہ داعش اس گندم کو 50 فیصد کی رعایتی قیمت پر فروخت کرتی ہے)۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ داعش عراق اور شام سے حاصل شدہ گندم کی پیداوار کی اصلیت کو چھپانے کے لیے دوسرے علاقوں کی گندم سے مکس کر کے فروخت کرتی ہے تا کہ اس گندم کے ماخذ کا پتہ نہ چل سکے۔
یہ دہشت گرد زرعی فارمز اور مشینری کو اپنے قبضے
میں لے کر اسے انہیں کے مالکان کو لیز پر دے کر بھی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔
3۔ تاریخی نوادرات کی بلیک مارکیٹ میں فروخت:
تاریخی نوادرات کی فروخت ان دہشت گرد تنظیموں کی آمدنی کا ایک اور بہت بڑا ذریعہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ داعش تاریخی نوادرات کی تجارت سے سالانہ 100 ملین ڈالرز کی رقم حاصل کرتی ہے، یہ نوادرات حادثی طور پر نیویارک اور لندن میں ظاہر ہوئیں۔
درحقیقت داعش براہ راست آثار قدیمہ کے کاموں میں ملوث نہیں بلکہ وہ بلیک مارکیٹ کے آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو لا ئسنس جاری کرتی ہے اور ان سے ٹیکس وصول کرتی ہے، (حلب میں آثارِ قدیمہ کے بلیک مارکیٹ کے ماہرین سے 20 فیصد، جبکہ رقہ میں 50 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے)۔
امریکہ کی آثارِ قدیمہ کی تنظیم کے مطابق ان نوادرات کی بڑی کھیپ کو براستہ لبنان، ترکی، سعودی عرب اور قطر، یورپی ممالک تک پہنچایا گیا۔
مختلف ذرائع سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق داعش کو ان تاریخی نوادرات سے حاصل ہونے والی آمدنی 100 ملین ڈالرز سالانہ ہے۔