امریکا نے افغانستان کی غیر موجودگی میں ماسکو میں ہونے والے سہ فریقی افغان مذاکراتی عمل کے حوالے سے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ یہ اجلاس امن کے قیام میں مدد فراہم کرے گا۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے ماسکو میں پاکستان، چین اور روس کے درمیان افغان امن مذاکرات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان کو شریک نہ کیے جانے پر اس نے شدید احتجاج کیا تھا۔
واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکا، دیگر ممالک سے افغانستان کے لیے مذاکرات کے تمام حقوق کا احساس کرتا ہے جو ان کے ملک اور عوام سے وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے افغان حکومت کی حمایت جاری رہے گی اور واشنگٹن اب بھی یقین رکھتا ہے کہ افغان قیادت کے تحت ہونے والے مذاکرات ہی افغانستان میں امن قائم کرسکتے ہیں۔
کیا امریکا افغانستان کے حوالے سے ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کی حمایت کرے گا؟ کے جواب میں جان کربی کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کو مزید تحفظ اور خوشحال کرنے کیلئے کیے جانے والے بین الاقوامی اقدامات کو ہم خوش آمدید کہیں گے، جیسا کہ ہم نے ہمیشہ افغان قیادت کے تحت مذاکرات کا عمل جاری رکھا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اب بھی یقین کرتے ہیں کہ یہاں سے درست راستے پر جانے کیلئے آگے بڑھنا ضروری ہے، یہ تبدیل نہیں ہوا، اور ہماری افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے لیے حمایت جاری ہے'۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو ان مذاکرات سے علیحدہ رکھا گیا 'اور ہم واضح طور پر وہاں نہیں تھے، تو میں اس اجلاس کے مندرجات پر بات نہیں کرسکتے'۔
تاہم امریکا نے کسی بھی مذاکراتی عمل کو خوش آمدید کہا 'جس کا مقصد افغانستان کو تحفظ فراہم کرنا اور اسے خوشحال کرنا ہے جیسا کہ ہم سب چاہتے ہیں'۔
جان کربی نے کہا کہ ایسے مذاکرات تعمیری ہوسکتے ہیں اگر 'وہ اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھائے جائیں کہ بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر نیٹو کے مینڈیٹ کا خیال رکھا جائے گا'۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ماسکو میں افغان مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے بعد روس، چین اور پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور ملک کی خراب ہوتی سیکیورٹی صورت حال پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں جان کربی کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس درخواست سے اچھی طرح واقف ہیں جس میں گلبدین حکمتیار کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی پابندیاں اٹھانے کیلئے کہا گیا ہے، جس نے حال ہی میں افغانستان سے امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اس موقع پر ایک سوال سامنے آیا کہ کیا امریکا ان پابندیوں کو اٹھانے میں مدد فراہم کرے گا؟
جس کے جواب میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'پابندیوں کی کمیٹی کے تحت ہونے والی مشاورت خفیہ ہیں اور ہم ان پر بات نہیں کرتے'۔
امریکا نے افغانستان کی غیر موجودگی میں ماسکو میں ہونے والے سہ فریقی افغان مذاکراتی عمل کے حوالے سے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ یہ اجلاس امن کے قیام میں مدد فراہم کرے گا۔
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، امریکا نے افغانستان کی غیر موجودگی میں ماسکو میں ہونے والے سہ فریقی افغان مذاکراتی عمل کے حوالے سے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ یہ اجلاس امن کے قیام میں مدد فراہم کرے گا۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے ماسکو میں پاکستان، چین اور روس کے درمیان افغان امن مذاکرات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان کو شریک نہ کیے جانے پر اس نے شدید احتجاج کیا تھا۔
واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکا، دیگر ممالک سے افغانستان کے لیے مذاکرات کے تمام حقوق کا احساس کرتا ہے جو ان کے ملک اور عوام سے وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے افغان حکومت کی حمایت جاری رہے گی اور واشنگٹن اب بھی یقین رکھتا ہے کہ افغان قیادت کے تحت ہونے والے مذاکرات ہی افغانستان میں امن قائم کرسکتے ہیں۔
کیا امریکا افغانستان کے حوالے سے ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کی حمایت کرے گا؟ کے جواب میں جان کربی کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کو مزید تحفظ اور خوشحال کرنے کیلئے کیے جانے والے بین الاقوامی اقدامات کو ہم خوش آمدید کہیں گے، جیسا کہ ہم نے ہمیشہ افغان قیادت کے تحت مذاکرات کا عمل جاری رکھا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اب بھی یقین کرتے ہیں کہ یہاں سے درست راستے پر جانے کیلئے آگے بڑھنا ضروری ہے، یہ تبدیل نہیں ہوا، اور ہماری افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے لیے حمایت جاری ہے'۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو ان مذاکرات سے علیحدہ رکھا گیا 'اور ہم واضح طور پر وہاں نہیں تھے، تو میں اس اجلاس کے مندرجات پر بات نہیں کرسکتے'۔
تاہم امریکا نے کسی بھی مذاکراتی عمل کو خوش آمدید کہا 'جس کا مقصد افغانستان کو تحفظ فراہم کرنا اور اسے خوشحال کرنا ہے جیسا کہ ہم سب چاہتے ہیں'۔
جان کربی نے کہا کہ ایسے مذاکرات تعمیری ہوسکتے ہیں اگر 'وہ اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھائے جائیں کہ بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر نیٹو کے مینڈیٹ کا خیال رکھا جائے گا'۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ماسکو میں افغان مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے بعد روس، چین اور پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور ملک کی خراب ہوتی سیکیورٹی صورت حال پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں جان کربی کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس درخواست سے اچھی طرح واقف ہیں جس میں گلبدین حکمتیار کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی پابندیاں اٹھانے کیلئے کہا گیا ہے، جس نے حال ہی میں افغانستان سے امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اس موقع پر ایک سوال سامنے آیا کہ کیا امریکا ان پابندیوں کو اٹھانے میں مدد فراہم کرے گا؟
جس کے جواب میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'پابندیوں کی کمیٹی کے تحت ہونے والی مشاورت خفیہ ہیں اور ہم ان پر بات نہیں کرتے'۔