پی آئی اے انتظامیہ نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ قومی ایئرلائن ایک ماہ میں 7 ارب 50 کروڑ روپے کما رہی ہے جبکہ اس کے اخراجات 13 ارب 14 کروڑ روپے سے زائد ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق، ایئرلائن کے بڑے اخراجات میں 4 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد قرضہ اور مارک اپ کی ادائیگی، 2 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد فیول اور 1 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد تنخواہوں کی ادائیگی شامل ہے۔
پی آئی اے کے 300 ارب روپے کے خسارے میں 186 ارب روپے سے زائد بینکوں کا قرضہ، 40 ارب روپے سے زائد سول ایوی ایشن اتھارٹی کے بقایا جات، 13 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو ادائیگی اور 4 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی ادائیگی شامل ہے۔
بریفنگ کا اہتمام سینیٹ کمیٹی کے لیے کیا گیا، جو پی آئی اے کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی ہے۔پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سید مظفر حسین شاہ کی سربراہی میں کام کرنے والی 3 رکنی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے (ر) جنرل عبدالقیوم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے فرحت اللہ بابر شامل ہیں۔
سینیٹرز نے ایئرلائن انتظامیہ سے انکوائری کا آغاز کیا اور یہ جاننا چاہا کہ اتنا بڑا خسارہ کیسے ہوا، کس کے دور میں پی آئی اے کا زوال شروع ہوا اور صورتحال کے حوالے سے اب تک کیوں کچھ نہیں کیا گیا، سینیٹرز نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ ایئرلائن نے اسلام آباد میں ہونے والے گذشتہ اجلاس کے دوران کمیٹی کی جانب سے طلب کی گئی رپورٹ/معلومات بھی فراہم نہیں کیں اور نہ ہی حالیہ اجلاس کے لیے کسی قسم کی دستاویزات فراہم کی گئیں۔
سینیٹ کمیٹی کے سربراہ مظفر حسین شاہ نے پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی قابلیت پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ کمیٹی کو فراہم کی گئی لسٹ کے مطابق ان میں سے ایک کی قابلیت 'برطانیہ کے اسکول سے تعلیم' ہے، ایک صرف گریجویٹ ہے اور ایک وائر مینوفیکچرر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان میں سے کسی کا بھی تعلق ایوی ایشن سے نہیں ہے، سید مظفر حسین شاہ نے سوال کیا کہ پی آئی اے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی اور وژن کے حوالے سے یہ اراکین کیا رائے دے سکتے ہیں۔
انھوں نے پی آئی اے انتظامیہ کو ہدایات جاری کیں کہ وہ قومی ایئرلائن کا ڈائریکٹر بننے کے لیے مطلوبہ قابلیت اور تجربے کی تفصیلات فراہم کریں جبکہ کمیٹی کو جائزے کے لیے موجودہ ڈائریکٹرز کی قابلیت اور تجربے کی تفصیلات بھی بتائیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ مالٹا میں ایک متنازع فلم بنانے کے لیے ایئرکرافٹ کو لیز پر دینے سے متعلق رپورٹ اور ایئرکرافٹ کو مبینہ طور پر 50 ہزار یورو میں فروخت کرنے کی وجوہات کے حوالے سے رپورٹ بھی وعدے کے مطابق ابھی تک کمیٹی کو کیوں فراہم نہیں کی گئی۔
سینیٹر عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ پی آئی اے نے بریفنگ سے قبل مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی، انھوں نے انتظامیہ سے کہا کہ وہ اپنی تجاویز دیں تاکہ کمیٹی قومی ایئرلائن کی بحالی کے لیے اپنی تجاویز مرتب کرسکے اور انھیں حکومت کو بھیجا جاسکے۔
پی آئی اے سربراہ برنڈ ہلڈن برینڈ کا کہنا تھا کہ ایئرلائن کی خراب مالی کارکردگی کی وجہ ایوی ایشن پالیسی ہے۔
انھوں نے کہا، اوپن اسکائی پالیسی کے تحت پی آئی اے اپنے برانے بیڑے کے ساتھ ایمرٹس، اتحاد، قطر ایئرویز اور عمان ایئر جیسی ایئرلائنز سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا شکار ہے، جن کے پاس بہتر طیارے اور عملہ موجود ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2016 میں پی آئی اے کو مسافروں کی تعداد اور منافع کے حوالے سے گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوئی۔