پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ہے۔ سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا۔
امریکہ نے اس قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق بھی استعمال نہیں کیا۔ ماضی میں امریکہ نے ایسی قراردادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کی مدد کی ہے۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی چھوڑ کر اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا ہے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیل نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ واشنگٹن نے اس ووٹ کی حمایت کی۔
اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور تل ابیب میں امریکی سفیر کو طلب کیا گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو جو وزیر خارجہ بھی ہیں نے امریکی سفیر ڈین شپیرو کو وزیر اعظم ہاوس طلب کر کے یہ غیر معمولی قدم اٹھایا۔
اسرائیل نے اپنے قریبی حلیف امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے لیے پس پردہ راہ ہموار کی۔ تاہم امریکہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اسے موخر کر دیا تھا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینیگال، وینزویلا، اور ملائیشیا نے اس قرارداد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔