طیارے نے استنبول کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے نجف کے لیے پرواز بھری، تو میں نے سیٹ کی پشت سے لگ کر آنکھیں بند کرلیں۔ تاریخ کے صفحات بر بکھرے عراق کے عروج زوال کے کتنے ہی مناظر میرے سامنے تھے۔
بابل و نینوا کے معلق باغات کی زمین، پیغمبروں، نبیوں، اولیائے کرام اور اماموں کے مقبروں کی سرزمین، جو کبھی علم و ہنر اور تہذیب کا گہوار بنی تو کبھی ہلاکو خان اور چنگیز خان جیسے جنگجوؤں کی وحشتوں کا نشانہ، حملہ آوروں نے کبھی دجلہ کے پانیوں کو انسانی خون سے رنگین کیا تو کبھی علم کے خزانوں کو آگ لگا کر بغداد کی فضاوں کو سیاہ کیا۔
افسوس کہ اکسیویں صدی میں عراق ایک بار پھر جارحیت اور پھر مسلکوں اور مفادات کی لڑائی میں گھرا خاک و خون میں لت پت ہے۔
ان ہی سوچوں میں تین گھنٹے گزر گئے۔ طیارے نے آسمان کی وسعتوں کو چھوڑ کر زمین کی راہ لی اور ہم نجف کے بین الا اقوامی ہوائی اڈے پر اتر گئے۔
جنگ کے بعد عراق میں حالات کتنے بدل چکے ہیں۔ نجف کا بین الا اقوامی ہوائی اڈہ اس کا پہلا ثبوت تھا۔
نجف آنے والے زائرین کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے سبب اس ہوائی پٹی کو جو پہلے صرف فوجی جہازوں کے لیے استعمال ہوتی تھی، 2008 میں ہوائی اڈے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کہنے کو یہ بین الاقوامی ضرور ہے مگر سہولتیں انتہائی ناکافی۔
نجف بغداد سے کوئی ایک سو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں کا ایک قبرستان وادی ا لسلام اتنا قدیم ہے کہ وہاں کئی پیغمبروں کی قبریں اب بھی محفوظ ہیں۔
تاہم امام علی کے مزار کی وجہ سے یہ شہر ہمیشہ انتہائی مقدس اور اہم رہا اور سہولتیں نہ ہونے کے باوجود زائرین کی آمد کا سلسلہ ہمیشہ ہی جاری رہا۔
مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق میں شیعہ اکثریتی حکومت قائم ہونے کے بعد مذ ہبی سیاحت میں بہت اضافہ ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے بعد نجف اور کربلا وہ شہر ہیں جہاں یوں تو سال بھر ہی مگر ایام محرم میں زائرین کا بے پناہ ہجوم رہتا ہے۔
نجف کے ہوائی اڈے سے امام علی کا مزار کوئی نصف گھنٹے کی مسافت پر شہر کے لگ بھگ مرکز میں واقع ہے۔ وین میں بیٹھتے ہی میں نے باہر کی جانب نظریں ٹکا دیں۔
شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے مجھے کہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ یہ کوئی قدیمی شہر ہے۔
عمارتیں کہیں دو منزلہ تو کہیں چار، کہیں گرد آلود چٹیل زمین، کچھ اندازہ نہ ہوسکا کہ شہر کا طرز تعمیر کیا ہے۔ کوئی باغات کا بھی رواج ہے یا نہیں، درخت بس کہیں کہیں۔
تمام تر زبوں حالی کے باوجود شہر نجف شیعوں کی سیاسی طاقت کا سرچشمہ رہا۔ آیت اللہ سیستانی یہیں رہتے ہیں جبکہ آیت اللہ خمینی نے ایران سے جلا وطنی کے بعد کوئی 14 برس یہیں کاٹے۔
نجف نہ صرف مذہبی اور سیاسی طور پر مستحکم نظر آتا ہے، بلکہ معاشی طور پر بھی زبوں حال نجف میں سے ایک نیا شہر ابھر رہا ہے۔
کاروبار پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے۔ زائرین کے لیے جدید ماڈلز کی چھوٹی بڑی بسیں، زائرین کے لیے نئے نئے ہوٹلز کی تعمیر۔ باہر سے آنے والوں کی وجہ سے ہوٹلوں کا بزنس لگ بھگ سال بھر ہی اپنے عروج پر رہتا ہے۔
عام عراقی جو بڑے کاروبار کے متحمل نہیں وہ بھی اپنے گھروں کو مہمان خانوں میں تبدیل کر رہے ہیں، ایسے زائرین کے لیے جو زیادہ اخراجات کا بار نہیں اٹھا سکتے۔
یہ سب ترقی امام علی کے روضے کے اطراف میں ہی نظر آئی۔ ممکنہ طور پر اس ترقی سے شہر کی معیشت میں ایسی بہتری آسکتی ہے جو عام شہریوں کے لیے بھی خوش آئند ہو مگر فی الحال ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔
غربت کے مناظر ہرطرف بکھرے پڑے تھے۔
ایسے ہی منظروں کے بیچوں بیچ امام علی کے شاندار روضے کا گنبد دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔ عمارت کی اتنی توسیع ہوچکی ہے کہ اس کا بیرونی احاطہ ارد گرد کی عمارات کے قریب جا پہنچا ہے۔
ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے اس کے گیٹ بس یوں سمجھیے حرم امام کے اندر ہی کھلتے تھے۔
بیرونی سکیورٹی سے گزر کر طویل و عریض صحن عبور کر کے میں اس عمارت کے اندر جانے لگی جہاں حضرت علی کا مدفن ہے تو وہاں کھڑی سکیورٹی پر مامور خاتون نے اشارے سے مجھے روک دیا۔
پہلے تو انھوں نے میرے عبایہ اور سر پر بندھے سکارف پر تنقیدی نظر ڈالی اور پھر انھوں نے ساتھ ہی کھونٹی پر لٹکی ایک ایرانی طرز کی سیاہ عبایہ مجھے تھما دی۔
ظاہر ہے مجبوری تھی، حکم تو ماننا تھا۔
خاصی دشواری کے ساتھ چلتے ہوئے جب میں اندر پہنچی تو خواتین کا جم غفیر قبر کی جالی کے ارد گرد گریہ و زاری میں مصروف تھا۔ بہت سی عورتیں جالی تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرے پر گر پڑ رہی تھیں۔
کوئی بھی مزار ہو، مقدس مقام ہو، مسلمانوں میں کسی پیچھے والے کو جگہ دینے کا کوئی رواج نہیں۔ آپ میں ہمت ہو تو دھکے دیتے ہوئے آگے پہنچ جائیے۔ اکثریت مجھے ایرانی اور عربی خواتین کی نظر آئی۔
میں عورتوں سے نظر ہٹا کر روضے کی چھت اور در و دیوار دیکھنے لگی۔ چاروں طرف چھت سے لٹکتے فانوسوں سے روشنیوں کے فوارے پھوٹ رہے تھے ایسے کہ شب میں بھی دن کا گمان ہو۔ دیواروں پر شیشہ گری کے کام میں رنگوں کا امتزاج دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قد آدم نقشین محرابی دروازے، سنگ مر مر کے فرش۔
روضے کی یہ سب تزئین و آرائش صدام حسین کے بعد ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عراق میں مقدس مقامات کی تعمیر و توسیع، انتظام اور سکیورٹی کے معاملات میں غیراعلانیہ طور پر ایرانیوں کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔
اس کا تو خیر مجھے اندازہ تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں اہل تشیع عراق کے دسیوں چکر لگا چکے ہیں مگر اس کا علم مجھے پہلی مرتبہ ہوا کہ اب کچھ خوشحال خاندان اپنے بچوں کے نکاح کی ادائیگی کے لیے بھی یہاں آنے لگے ہیں۔
ہمارے گروپ میں ایک خاندان برمنگھم سے اور ایک خاندان جرمنی سے محض تین دن کے لیے رسم نکاح کے لیے نجف آئے تھے۔
آیت اللہ سیستانی باہر سے آنے والے زائرین سے ضرور ملتے ہیں۔ روضے سے متصل ایک پتلی، بوسیدہ سی گلی میں ان سے ملاقات کے لیے ہمیں سکیورٹی کے تین مراحل سے گزرنا پڑا۔ سکیورٹی پر تعینات نوجوانوں کے بارے میں ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کا تعلق حزب اللہ سے ہے۔
سادہ سے کمرے میں دو مولوی صاحبان کے درمیان سفید عبایہ کے اوپر سیاہ قبا، سیاہ عمامے میں ملبوس آیت اللہ سیستانی ایک بینچ پر دیوار کے سہارے لگے بیٹھے تھے۔ سفید ریش آیت اللہ مجھے خاصے ضعیف اور کمزور سے لگے۔ کاش موبائل فون لانے کی اجازت ہوتی۔
ہاں چلتے چلتے ایک اور ذکر بھی، نجف میں قائم حوضہ نجف (مدرسہ) شیعہ مکتبۂ فکر کے دو بڑے مدرسوں میں سے ایک ہے (دوسرا ایران کے شہر قم میں ہے)۔
آنے سے پہلے میں نے یہاں لائبریریوں کا بہت تذکرہ سنا تھا۔ میرے ذہن میں تھا کہ یہ کوئی عظیم الشان لائیبریری اور درس گاہ ہوگی۔
میں اسے دیکھنے کی بہت خواہشمند تھی۔ میں نے باب العلم کے روضے کے اطراف میں کئی مقامی افراد اور اپنی گائیڈ سے لائبریری کے بارے میں جاننا چاہا مگر افسوس کہ نہ تو کسی کو علم تھا نہ آنے والے زائرین کو اس میں کوئی دلچسپی۔