شدت پسند تنظیم بوکو حرام کی قید سے آزاد ہو کر نائجیریا کی 20 سے زیادہ 'چبوک لڑکیاں' کرسمس کے موقعے پر اپنے خاندانوں سے جا ملی ہیں۔
اپریل سنہ 2014 میں چبوک کے ایک سکول سے اغوا کیے جانے والوں کے بعد وہ پہلی بار گھر لوٹی ہیں۔
یہ لڑکیاں اکتوبر میں سوئٹزر لینڈ اور ریڈ کراس کے بوکو حرام کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد رہا کی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے انھیں نائجیریا کی حکومت نے ڈی بریفنگ کے لیے ایک خفیہ مقام پر رکھا ہوا تھا۔
ان میں سے ایک لڑکی 22 سالہ اسابے گونی نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ان کی گھر واپسی ایک 'معجزہ' ہے۔
اپنی ماں کو کرسمس کے لیے تیاریاں کرواتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ کرسمس کے دن چرچ جانے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔
'مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کبھی گھر لوٹ سکوں گی۔ میں نے گھر واپسی کی تمام امیدیں ترک کر دی تھیں۔'
اسابے 276 مغوی لڑکیوں میں سے ایک ہیں۔ ابھی تک 197 لڑکیاں لاپتہ ہیں اور ان کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
ان چبوک لڑکیوں میں سے بہت سی مسیحی تھیں اور انھیں قید کے دوران اسلام قبول کرنے اور اپنے اغواکاروں سے شادی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
اسابے نے کہا کہ بعض لڑکیوں کو شادی سے انکار کرنے پر مارا پیٹا گیا، تاہم اس کے علاوہ ان سے اچھا سلوک کیا گیا۔
اکتوبر میں معاہدے کے بعد اغواکاروں نے اعلان کیا تھا کہ جو لڑکیاں گھر جانا چاہتی ہیں وہ آگے آ جائیں۔
دوسری لڑکیاں قطار میں جانے کے لیے آگے بڑھیں لیکن اسابے بیمار تھیں اور ان میں اتنی ہمت باقی نہیں رہی تھی کہ وہ حرکت کر سکیں، تاہم انھیں جلد ہی بتا دیا گیا کہ وہ آزاد ہونے والی لڑکیوں میں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا: 'جب فہرست میں میرا نام پکارا گیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔'
تاہم انھیں اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی کزن مارگریٹ ابھی تک قید میں ہیں۔
اسابے کا انٹرویو نائجیریا کے شمالی شہر یولا میں ان کے گھر پر لیا گیا۔ اس دوران گھر میں ان کے والد، سوتیلی ماں، پانچ بہن بھائی اور کئی پڑوسی موجود تھے۔
انھوں نے کہا: 'بعض لڑکیاں پیچھے رہ جانے پر رو پڑیں، لیکن بوکو حرام کے آدمیوں نے انھیں تسلی دی کہ ان کے گھر جانے کی باری بھی جلد آ جائے گی۔'
اس سے پہلے صرف ایک چبوک لڑکی کو رہا گیا تھا۔
24 اکتوبر کو نائجیریا کے صدر محمد بخاری نے کہا تھا کہ فوج نے بوکر حرام کو سامبیسا جنگل میں واقع ان کے آخری ٹھکانے سے بھی دھکیل دیا ہے۔