براک اوباما نے *امریکی دفاعی بل 2017 پر دستخط * کیے ہیں، جس کے تحت فوج کی جانب سے داعش کے خلاف کارروائیاں برقرار رکھنے کے لیے 611 ارب ڈالرز کے فنڈز رکھے گئے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بل امریکی صدر کو جیل بند کرنے سے بھی روکتا ہے۔
براک اوباما نے 2008 میں اپنی پہلی صدارتی مہم کے دوران جیل کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر آئندہ ماہ 20 جنوری کو وہ اپنے عہدے کا دوسرا اور آخری مرحلہ مکمل کرکے سبکدوش ہونے والے ہیں مگر تاحال ان کی جانب سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں ہوسکا ۔
خیال رہے کہ انہوں نے رواں برس فروری میں جیلوں کو بند کرنے سے متعلق ایک منصوبہ کانگریس میں پیش کیا تھا، مگر دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والے ریپبلکن قانون سازوں نے اس منصوبے کو مسترد کردیا۔
قانون سازوں نے اوباما انتظامیہ کو پیغام دیا تھا کہ وہ جیلوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مستقبل کی سہولت کے طور پر کھلا رکھنا چاہتے ہیں، مگر آنے والا امریکی صدر ریپبلکن ہے، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قانون ساز اپنا مقصد پورا کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق براک اوباما کا کہنا ہے کہ کیوبا میں موجود جیل کے لیے ہم کئی سال سے لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں جب کہ جیل میں موجود صرف 600 افراد کو حراست میں رکھنا بحیثیت ایک قوم ہمارے مفادات کے خلاف ہے جس سے دنیا بھر میں ہماری ساکھ متاثر ہورہی ہے۔
امریکی صدر نے دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جیل کو کھلا رکھنا امریکی قومی سلامتی کے مفادات کو پانی میں بہانے کے مترادف ہے، اس سے ہمارے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں اور یہ انتہاپسندوں کو بھی مزید متشدد بنارہا ہے۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ کانگریس کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے برعکس ہمیں جیل بند کرکے اپنی قومی غیرت کے خلاف لگے داغ کو صاف کرنا پڑے گا، کانگریس کی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا گیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
خیال رہے کہ دفاعی بل 2017 کے تحت کانگریس کی منظوری کے بغیر کسی بھی تعمیراتی منصوبے کے لیے فنڈز استعمال نہیں کیے جا سکیں گے اور نہ ہی گوانتاموبے جیل سے قیدیوں کو حراست میں لینے اور محکمہ دفاع کے حوالے کیا جا سکے گا۔