امام خمینی اور رہبر انقلاب اسلامی کے افکار میں اسلامی مذاہب کی تقریب کے زیر عنوان اراک میں منعقدہ کانفرنس کی کمیشن B میں حبیب اللہ یوسفی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا: قرآن کریم اسلامی مذاہب کو آپس میں قریب کرنے کے لیے خود ایک مشترکہ بنیادی اصل ہے تمام اسلامی مذاہب قرآن کریم کو وحی منزل مانتے ہیں۔
انہوں نے ’’وحدت اسلامی قرآن کریم کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے پیش کئے گئے اپنے مقالے میں کہا: قرآن کریم انسانی زندگی کے تمام امور کے حوالے سے دستور العمل پیش کرتا ہے۔ یہ آسمانی کتاب ہمیں توحید الہی اور نبوت محمد مصطفیٰ پر جمع ہو جانے کی دعوت دیتی ہے۔
اس محقق نے مزید کہا: قرآن میں اسلامی وحدت کے بارے میں بہت سارے دستورات پائے جاتے ہیں جن میں اتحاد اور یکجہتی کے راز کو آپس میں مہربانہ اور منطقی گفتگو قرار دیا ہے۔
کمیشن میں ’’ اسلامی مذاہب کی تقریب قرآنی تعلیمات کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے دوسرا مقالہ پیش کرتے ہوئے سید حسن حسینی نے کہا: مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر اسلام کی بے انتہا تاکید پائی جاتی ہے، اور حبل اللہ سے تمسک مسلمانوں کو اس مقصد تک پہنچانے میں موثر ثابت ہو گا۔
انہوں نے کہا: اسلام کی بنیاد ہی اتحاد پر قائم ہے لہذا مسلمانوں کے درمیان اس مقصد تک پہنچنے کے لیے ایثار اور جانفشانی کے جذبے کو اجاگر کرنا چاہیے، تفرقہ اور نفرت پھیلانے والے عوامل کو مسلمانوں سے دور کرنا چاہیے اور قرآن کریم کو معیار قرار دے کر انسانوں کی برتری کے اصول تقویٰ علم اور جہاد پیش کرنا چاہیے۔
اس کمیشن میں تیسرا مقالہ پیش کرتے ہوئے سید حمید حسینی نے کہا: تقریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیعہ یا اہل سنت اپنے عقائد سے دست بردار ہو جائیں بلکہ تقریب کا مطلب یہ ہے کہ نفرت انگیز باتوں، ایک دوسرے کے جذبات کو بھڑکانے والے نعروں اور کفر کے فتووں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی مذاہب کے درمیان تقریب اور دشمن کے مقابلہ میں بیک زباں صف آرائی ہمیشہ سے مسلمان علماء کی آرزو رہی ہے۔
جمال الدین سلیمانی نے عربی میں اپنا مقالہ پڑھتے ہوئے کہا: حدیث ثقلین شیعہ سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور یہ حدیث اتحاد کا محور واقع ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: تمام مسلمان ایک قبلہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں، ایک کعبہ کا طواف بجا لاتے ہیں، شیعوں کے ائمہ طاہرین کی تعلیمات بھی تمام مسلمانوں کے لیے باعث سعادت اور سربلندی ہیں لہذا ہمیں ان چیزوں کو سامنے رکھ کر آپس میں اتفاق کر لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا: وحدت اسلامی، حکم اولی ہے نہ حکم ثانوی، اور عصر حاضر میں اتحاد کی ضرورت بھی ہر چیز سے زیادہ ہے۔
اس کمیشن کے آخر میں راضیہ علی اکبری نے اپنا مقالہ پڑھتے ہوئے کہا: دشمن مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے منفی اور ضعیف نکات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی فرقوں کے ماننے والوں میں سے بعض کی ایک دوسرے کے تئیں بےجا اور جھوٹی تہمتیں اس طرح کے مسائل کھڑے کرتی ہیں ہمیں اہل سنت اور ناصبی گرہوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا چاہیے۔
اس محقق نے آخر میں کہا: اسلامی وحدت کی راہ میں ایک سب سے بڑی مشکل، مذہبی مقدسات کی توہین ہے، قرآن میں گالی گلوچ کو سختی سے منع کیا گیا ہے اور اہل تشیع کے نزدیک بھی کسی مذہب کے مقدسات پر کیچڑ اچھالنا کسی بھی عنوان سے جائز نہیں ہے اسی طرح لعن بھی اگر کسی فرقہ کی توہین کا باعث ہے تو اسے بھی منع کر دیا گیا ہے۔