امام حسین (علیہ السلام ) کے چہلم کا دن حقیقت میں اہداف کربلا کی کامرانی اور انقلاب کربلا کی بنیاد کا دن ہے۔ شام کے اعتقادی خیبر کو فتح کرنے کے بعد علی (علیہ السلام ) کی شیر دل بیٹی نے کربلا میں چہلم کے دن حاضری دیکر اپنے زمانے کے امام سے بیعت کی تجدید کی۔
چہلم کا دن دراصل واقعہ کربلا میں ایک نئی تحریک کے آغاز کا دن تها۔ واقعہ کربلا کے بعد کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں حضرت ابا عبداللہ امام حسین علیہ السلام، ان کے اهل بیت علیہم السلام اور ان کے با وفا ساتهیوں کی بے نظیر قربانیوں کے بعد اهل بیت(علیہ السلام ) کی خواتین اور بچوں کی اسیری کا آغاز ہوا جس کے ذریعہ اِن قیدیوں نے پیغام کربلا کو کونے کونے تک پہنچا دیا۔ حضرت زینب(سلام اللہ علیھا ) اور حضرت امام سجاد(علیہ السلام ) نے اپنے خطبات اور حقائق کو بیان اور واضح کرنے کے ذریعے در اصل ایک مضبوط و مستحکم میڈیا کی مانند واقعہ کربلا کے مقاصد، اہداف، اُس کے مختلف پہلووں اور ایک انقلابی اور زندہ سوچ کو جہاں جہاں بهی انہیں موقع ملا پهیلا دیا۔(1)
کوفہ اور شام جیسے شہروں میں جہاں سیاسی اصطلاح کے مطابق دباؤ اور گهٹن کا ماحول تها اور کربلا سے اِن شہروں کے درمیانی راستے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضرت زینب(سلام اللہ علیھا ) یا امام سجاد(علیہ السلام ) کی زبانی یا ان اسیروں کی حالت زار دیکھ کر بہت کچھ سمجھ گئے تهے لیکن کسی میں یہ طاقت و جرأت نہیں تهی کہ وہ ظلم و ستم کے اُس حکومتی نظام کے خلاف اور اُس سیاسی دباؤ کے دور میں جو کچھ اُس نے سنا اورسمجها ہے اُسے اپنی زبان پر لائے! یہ واقعہ اور یہ تمام حقائق ایک پهندے کی صورت میں مومنین کے حلق میں پهنسے ہوئے تهے۔ لیکن اِس احساس اور پهندے نے چہلم کے دن اپنا حصار توڑ دیا اور چشمہ بن کر کربلا میں پهوٹا۔
شاید حضرت زینب(سلام اللہ علیھا ) کی مدبرانہ "ولائی” سیاست کہ جس کے مطابق اُنہوں نے شام سے مدینے جاتے وقت کربلا جانے پر اصرار کیا، اس کا مقصد یہ تها کہ اربعین کے دن کربلا میں یہ چهوٹا سا مگر پُر معنیٰ اجتماع منعقد ہو سکے۔(2)
آج ہم چشم دید ہیں کہ لاکهوں کی تعداد اہل تشیع نیز محبان حسین(علیہ السلام )، عراق کے اس جنوبی شہر کی جانب جانے والی شاہراہوں پر پیدل رواں دواں ہیں جبکہ عراقی حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس موقع پر تکفیری دہشت گرد، زائرین کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں، اس کے باوجود عاشقان مظلوم نینوا(علیہ السلام )، "لبیک یاحسین، لبیک یا زینب" کی آواز بلند کرتے، بلاخوف وشک وشبہ اپنے معشوق کی طرف دواں دواں ہیں۔ خصوصا موجودہ حالات میں جبکہ ایک طرف داعش کا تکفیری فتنہ فساد پھیل رہا ہے جبکہ دوسری طرف سال بہ سال عاشقان امام حسین کے قافلے میں اضافہ ہورہا ہے۔ (3)
شہدائے کربلا کا چہلم معمول کی کوئی سادہ سی رسم یا مجلس کا معمولی سا پروگرام نہیں ہے بلکہ مستند اعداد شمار کے مطابق یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع ہے کہ جس کی اساس اور بنیاد، دین اور معنونیت پر استوار ہے کہ جس پر اس وقت ساری دنیا کی توجہ لگی ہوئی ہے۔
یہ درحقیقت اُس ہدف کے محقق ہونے کا ثبوت ہے جو امام حسین(علیہ السلام ) اور اُن کے اصحاب واہل بیت(علیہ السلام ) کی شہادتوں کی وجہ سے یقینی تها، یعنی کربلا کے عالمی اور انقلابی افکار کو لوگوں تک پہنچانا اور اُنہیں یہ طاقت و جرأت دینا کہ وہ ظلم کی آنکهوں میں آنکهیں ڈال کر بات کر سکیں۔
عصر حاضر کے مجدد اور کربلائے حسین(علیہ السلام) کے پیروکار، حضرت امام خمینی(رح) نے حضرت سید الشہدا علیہ السلام اور آپ کے با وفا اہل بیت(علیہ السلام ) اور اصحاب(رح) کی مظلومیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مجالس واجتماعات میں گریہ کا محرک یہ نہیں ہے کہ ہم حضرت سید الشہدا علیہ السلام پر گریہ کریں۔ سید الشہدا(علیہ السلام ) کو اس گریہ کی ضرورت نہیں ہے اور صرف اس گریہ سے کوئی کام انجام تک نہیں پہنچتا۔ لیکن یہ مجلسیں لوگوں کو اکٹها کرتی ہیں۔ تین ساڑهے تین کروڑ لوگ محرم وصفر میں خاص کر روز عاشور، اکٹها ہوتے ہیں اور ایک ہی رخ پر چل پڑتے ہیں۔ بعض ائمہ(علیہ السلام) نے بلا وجہ نہیں فرمایا کہ منبر پر میرے مصائب بیان کیئے جائیں؛ بلا وجہ نہیں فرمایا کہ جو شخص روئے، رلائے یا رونے والے جیسی صورت بنائے تو اس کا اجر نہ جانے کیا کیا ہے۔ بات صرف گریہ کی نہیں ہے اور گریہ دار جیسی صورت بنانے کی نہیں ہے، بلکہ اس میں کچھ راز ہے۔ ہمارے ائمہ (علیہ السلام ) اپنی خداداد بصیرت کے پیش نظر یہ چاہتے تهے کہ ان قوموں کو یکجا اور متحد کردیں تاکہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔(4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) محرم الحرام، علامہ امین شھیدی ص 114
(2)لبیک یاحسین، سید حسن نصر اللہ ص 189
(3) http://ur.abna24.com/722988/print.html
(4) صحیفہ امام خمینی، ج 13، ص 323