خلاصہ:اس مضمون میں بعض بزرگ علماء کی نظر میں اربعین کی تاریخی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے اور اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کے لئے پیدل کربلا کی طرف جانے کا سلسلہ ائمہ(علیہم السلام) کے زامانے سے رائج ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اربعین حسینی، قمری سال کے مطابق ۲۰صفر المظفر کا دن ہے جو کربلا میں عاشورا سنہ ۶۱ ہجری میں حضرت امام حسین(علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں روز ہے۔
مشہور ہے کہ کربلا میں حضرت امام حسین(علیہ السلام) اور آپ کے اہل خاندان اور اصحاب کی شہادت کے بعد باقیماندہ افراد کو قید کرکے کوفہ اور شام لے جایا گیا جہاں سے مدینہ واپسی کے وقت اسیران اہل بیت، حضرت امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کے لیے کربلا آئے۔
اہل بیت(علیہم السلام) شام سے مدینہ واپسی کے دوران کربلا سے پہلے ہی سال گزرے ہیں یا اس کے علاوہ؟، یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں آسانی سے کوئی رائے دینا ممکن نہیں ہے۔
محدث نوری نے اپنی کتاب اللو لو والمرجان[۱] میں اور ان کے شاگرد شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب منتہی الآمال[۲] میں کہا ہے کہ یہ زیارت پہلے سال کے دوران انجام نہیں پائی ہے۔ محدث نوری سے پہلے کتاب اقبال الاعمال[۳] میں سید ابن طاؤوس نے اس رائے کے ساتھ اتفاق نہیں کیا ہے۔
ان کے مقابلے میں بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اسیران کربلا کا قافلہ شام سے عراق آیا ہے اور اربعین کے دن کربلا پہنچا ہے اور زیارت حضرت امام حسین(علیہ السلام) کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوا ہے۔ سید ابن طاؤوس نے اپنی کتاب اللہوف[۴] میں صراحت کے ساتھ یہی رائے دی ہے اور واضح کیا ہے کہ قافلہ اہل بیت(علیہ السلام) نے اس سفر میں جابر ابن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کے بعض افراد کو بھی کربلا میں دیکھا ہے۔
سید محمد علی قاضی طباطبائی نے محدث نوری اور محدث قمی کی رائے کو رد کرنے کے لئے ’’تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سید الشہداء‘‘ کے عنوان سے مفصل کتاب تالیف کی ہے۔
جابر ابن عبداللہ انصاری جو حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے صحابہ میں سے ہیں، سید الشہداء کے پہلے زائر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، وہ عطیہ ابن سعید کے ہمراہ سنہ۶۱ ہجری کے واقعہ عاشورا میں حضرت امام حسین(علیہ السلام) کی شہادت کے چالیس دن کے بعد پہلی اربعین کو کربلا آئے اور قبر حضرت امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت سے مشرف ہوئے[۵]۔
قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ زیارت اربعین، زیارت "مردّ الرّأس" بھی کہلاتی ہے[۶] یعنی سر کا واپس دیا جانا، کیوں کہ اس روز اسیران اہل بیت(علیہم السلام ) کربلا پلٹ کر آئے تو وہ حضرت امام حسین(علیہ السلام ) کا سرمبارک بھی شام سے واپس لائے تھے جس کو انہوں نے حضرت امام حسین(علیہ السلام) کے ساتھ دفن کیا۔
قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ پائے پیادہ کربلا کی طرف جانے والے زائرین کے قافلوں کا سلسلہ آئمہ طاہرین(علیہم السلام) کے زمانے میں رائج تھا اور حتی یہ سلسلہ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی جاری رہا اور تمام تر سختیوں اور خطرات کے باوجود شیعہ حضرات پابندی کے ساتھ شرکت کرتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]- محدث نوری، اللولو والمرجان، ص ۲۰۸-۲۰۹۔
]۲- محدث قمی، منتہی الآمال،ص۵۲۴-۵۲۵۔
[۳]- سید ابن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۸۹.
[۴]- سید ابن طاؤوس، اللہوف، ص۲۲۵۔
[۵]- قمی، سفینة البحار، ج۸، ص۳۸۳۔
[۶]- قاضی طباطبایی، تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سید الشہداء ص۲۔