امام سجاد علیہ السلام نے استقامت، مقاومت ، یزیدی استبداد کے سامنے تسلیم نہ ہونے اور کوفہ وشام میں بہترین خطبہ ارشاد فرما کر ان دونوں شہروں کے لوگوں کو یزید کے خلاف بھڑکا دیا اور اس جگہ کو خاندان بنی امیہ کے لئے نا امن کردیا ۔
پہلے مرحلہ میں کہنا چاہئے کہ کوفہ اور شام میں اہل بیت علیہم السلام پر جو مصائب ڈھائے گئے وہ کربلا کے مصائب سے زیادہ سخت ہیں (١) ۔ لہذا حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے اور اپنے اس انقلاب کے نونہال کی حفاظت کے لئے اپنے باقی ماندہ اکلوتے بیٹے امام سید السجاد کا انتخاب کیا اور اپنی آخری وصیت ان کے سامنے بیان کی اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ان کی اطاعت کرنے کی سفارش فرمائی (٢) ۔ امام علیہ السلام اس حساس اور طوفانی لمحات میں بھی اپنے شیعوں اور اپنے ماننے والوں کو فراموش نہیں کرتے اور اپنی مظلومیت کا پیغام اپنے بیٹے کے ذریعہ ان تک پہنچاتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں کہ اپنے ہدف کے آخری مرحلہ میں کس طرح ہمت سے کام لینا چاہئے (٣) ۔
دوسری طرف امام زین العابدین علیہ السلام، علم و فصاحت علوی اور شجاعت و جسارت حسینی کے وارث ہیں (٤) لہذا آپ نے کوفہ اور شام میں اپنے خطبوں اور کلام سے (٥) لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اوران کے اوپر حجت تمام کی (٦) ۔
ان تمام تفاسیر کو مدنظر رکھتے ہوئے یقینا امام سجاد علیہ السلام کے تاریخی خطبوں میں موجود سیاسی تعلیمات اس حقیقت کوبیان کرتی ہے کہ آپ میں اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنے کی جنگی روح موجود تھی (٧) ۔اس وجہ سے اس مقالہ میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے قیمتی بیانات سے استفادہ کرتے ہوئے انقلاب عاشورا کو زندہ رکھنے میں امام سجاد علیہ السلام کی سیاسی سیرت کو قارئین کے سامنے بیان کریں گے ۔
اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ کوفہ و شام میں امام سجاد علیہ السلام کے خطبوں نے یزید اور یزیدیوں کے محلوں کی بنیادوں کو متزلز ل کردیا اور کوفہ وشام کے لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کردیا اور اسلام کو محو کرنے اور شہادت امام حسین علیہ السلام کو کم رنگ کرنے کیلئے بنی امیہ کے مذموم منصوبوں کو خاک میں ملا دیا (٨) ۔
مثال کے طور پر امام سجاد علیہ السلام نے کوفہ میں اس طرح فرمایا : اے لوگو ! جو مجھے پہچانتا ہے وہ جانتا ہے کہ میں کون ہوں ،لیکن جو مجھے نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں علی بن الحسین ہوں ،میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کو بغیر کسی جرم و خطا کے نہر فرات کے کنارے تشنہ لب قتل کردیا گیا ۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کی حرمت کا خیال نہیں رکھا گیا اور اس کے مال واسباب کو لوٹ لیا گیا ،اس کے خاندان کو اسیر کرلیا گیا (٩) ۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کو بہت ہی اذیت اور شکنجہ سے شہید کیا گیا اور یہی اختیار ہمارے لئے کافی ہے (١٠) ۔
پھر امام سجاد علیہ السلام نے ان اشعار کے ساتھ اپنی بات کو ختم کیا : اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اگر حسین علیہ السلام اور ان کے والد جو کہ ان سے بہتر اور بزرگوار کو قتل کردیا گیا ۔ اے کوفیو! اس بزرگ مصیبت پر خوش نہ ہو جو حسین پر پڑی ہے ۔ میری جان قربان ہوجائے اس مقتول پر جس کو فرات کے کنارے بھوکا و پیاسہ شہید کردیا گیا ، لیکن جس نے ان کو شہید کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے (١١ ) ۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں یزید کے جرائم کو فاش کرنا
امام سجاد علیہ السلام نے یزید کے جواب میں فرمایا : وائے ہو تجھ پراے یزید ! اگر تجھے معلوم ہوتا کہ تو نے کیا کیا ہے اور میرے والد، بھائی، چچا اور خاندان کے ساتھ کیا جرائم انجام دئیے ہیں تو یقینا تو (خوف و وحشت) سے پہاڑوں پر فرار کرجاتا اور خاک پر بیٹھتا اور نالہ و فریاد کرتا کہ میرے والد حسین بن علی و فاطمہ علیہم السلام کے سراقدس کو اپنے شہر کے دروازہ پر لٹکایا ہے ، جبکہ وہ تمہارے درمیان رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی امانت تھے ۔ (اے یزید!) میں تجھے قیامت کے روز جب سب ایک جگہ جمع ہوں گے ذلت و خواری کی بشارت دیتا ہوں (١٢) ۔
امام سجادعلیہ السلام جانتے تھے کہ یزید کے دل میں ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ اس کا دل ، خدا اور یوم المعاد کے ایمان سے خالی تھا ، کیونکہ وہ شراب خوار تھا اور اس طرح کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا تھا ، لیکن اس مجمع میں شام کے بہت سے ایسے مشہور لوگ موجود تھے جن کو ا مام علیہ السلام نے اصلی مخاطب قرار دیا تھا اور یہ باتیں ان کے دلوں میں اثر کرگئیں اور چونکہ بادشاہوں اور خلفاء کے دربار اخباروں کو منتشر کرنے کا مرکز ہوتے تھے ، وہاں سے دوسرے علاقوں میں یہ باتیں منتشر ہوگئیں اور خاندان بنی امیہ کی اصلی حقیقت سب کے سامنے اجاگر ہوگئی اور ان کی پیشانی پر کفر و بے ایمانی کی مہر لگا دی (١٣) ۔
جی ہاں ! خدا چاہتا تھا کہ یہ جرائم پیشہ گروہ اپنی ذلت اور رسوائی کی سند یعنی شہدائے کربلا کے مقدس سروں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خاندان کو اسیرکرکے ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائیں اور پہلے سے زیادہ خاص وعام میں رسوا و ذلیل ہوجائیں (١٤) ۔
شہادت طلبی اہل بیت علیہم السلام کی عادت اور کرامت
اس اہم مسئلہ کی وضاحت میں امام سجاد علیہ السلام کے اس سیاسی کلام کو بیان کرنا ہی کافی ہے کہ جب ابن زیاد نے کہا : اس (علی بن الحسین) کو چھوڑ دو میں خیال کرتا ہوں کہ اس کے درد و رنج کے لئے یہی بیماری کافی ہے (١٥) تو امام سجاد علیہ السلام نے ابن زیاد کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا : '' أَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُني يَابْنَ زِيادٍ، أَما عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَةٌ وَ كَرامَتَنَا الشَّهادَةُ '' ۔ اے ابن زیاد ! کیا تو ہمیں قتل کی دھمکی دے رہا ہے ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ (خدا کی راہ میں) قتل ہونا میری دیرینہ عادت اور شہادت ہمارا افتخار ہے (١٦) ۔
امام سجاد علیہ السلام کے خطبوں میں سیاسی بصیرت پر تاکید
کوفہ کے لوگوں کی سیاسی بصیرت کے فقدان کو بیان کرنے کیلئے امام زین العابدین علیہ السلام کے اس کلام کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ آپ نے فرمایا : اے لوگو ! تمہیں خدا کی قسم ! کیا تم قبول کرتے ہو کہ تم نے میرے والد کو خطوط لکھے تھے (اور ان کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی) لیکن تم نے ان کے ساتھ فریب سے کام لیا ۔ تم نے ان سے اپنی جان ومال کے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا اور بیعت کی تھی ، پھر ان کو تنہا چھوڑ دیااوران کے ساتھ جنگ کی ؟ خداوندعالم تمہیں اس ظلم اور فریب کی وجہ سے نیست و نابود کرے جو تم نے پہلے سے زادراہ بھیجا ہے اور اپنی زندگی کے لئے غلط ارادہ کیا ہے (١٧) ۔ تم کن آنکھوں سے رسول خدا (ص) کی طرف دیکھو گے جس وقت قیامت کے روز تم سے پوچھیں گے: تم نے میرے خاندان کو قتل کردیا اور میرے اہل بیت کی بے احترامی کی ، تم میری امت سے نہیں ہو (١٨) ۔
سب لوگوں نے ایک ساتھ کہا : اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ... جس نے تمہارے ساتھ جنگ کی ہم اس سے جنگ کریں گے اور جو تم سے صلح کرے گا ہم اس سے صلح کریں گے ... لیکن امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا : ''ھیھات'' ! اے وعدہ وفا نہ کرنے والے حیلہ گروں ! (تمہارے وعدوں پر ہمیں کبھی بھی یقین نہیں آئے گا) کیونکہ تمہارے اور تمہاری خواہشات کے درمیان (جہل و غفلت اور ناتوانی کا) پردہ پڑا ہوا ہے ... لہذا میری تم سے یہ خواہش ہے کہ نہ ہماری حمایت کرو اور نہ ہم سے جنگ کرو (ہمیں تم سے خیر کی کوئی امید نہیں ہے ، بس ہمیں نقصان نہ پہنچائو ) (١٩) ۔
امام سجاد علیہ السلام کے اس اہم خطبہ میں غور وفکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ امام علیہ السلام جانتے تھے کہ یہ لوگ بے وفائی اور بے بصیرتی کی وجہ سے بنی امیہ کے خلاف قیام کرنے سے قاصر ہیں ، لہذا ان کی بات کی تردید کی اور فرمایا : میں بس اسی پر اکتفاء کرتا ہوں کہ تم ہمارے خلاف قدم نہ بڑھائو ، ہمیں تم سے خیر کی امید نہیں ہے (٢٠) ۔
اسلام نبوی کی ترویج اور بنی امیہ کے اسلام کی نفی
انقلاب عاشورا کو احیاء کرنے میں امام علیہ السلام کے سیاسی نظریات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے ، امام سجاد علیہ السلام نے شام میں فرمایا : خدا وندعالم کے منتخب کردہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہم میں سے ہیں اور وہ صدیق (علی علیہ السلام جنہوں نے خدا اور اس کے رسول کی تصدیق کی ہے ) ہم میں سے ہیں(٢١) ، پس امام علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے اپنا تعارف اور اہل بیت علیہم السلام کا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ارتباط و اتصال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ایھا الناس ! ! أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَمِنى، أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَالصَّفا...أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطفى، أَنَا ابْنُ عَلِيٍّ الْمُرْتَضى، أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَراطِيمَ الْخَلْقِ حَتّى قالُوا: لاإِلهَ إِلَّا اللَّهُ؛ «اى مردم! من فرزند مكّه و منايم، من فرزند زمزم و صفايم...'' ۔ اے لوگو ! میں مکہ اور منی کا بیٹا ہوں ، میں زمزم اور صفا کا بیٹا ہوں ... (جی ہاں ) میں محمد مصطفی اور علی مرتضی کا بیٹا ہوں ، میں اس کا بیٹا ہوں جس نے قتل کرنے والوں پر اس قدر تلوار چلائی کہ انہیں کہنا پڑا : لا الہ الا اللہ (٢٢) ۔
جی ہاں ! امام حسین علیہ السلام نے اپنی شہادت سے ان لوگوں کے اوپر حجت تمام کردی جنہوں نے ابھی تک بنی امیہ کے اسلام میں زندگی بسر کی تھی اور معاویہ جیسا امیرالمومنین دیکھا تھا اور اب فاسق و فاجر، شراب خوار یزید ان پر خلافت اور امامت کا دعوی کررہا تھا اور وہ فقط اپنے خاندان کو مسلمان سمجھتا تھا اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے پاک و پاکیزہ خاندان کو دین اسلام سے خارج سمجھتا تھا (٢٣) ۔
قیام عاشورا کے ساتھ اسلامی شعائر کا سیاسی ارتباط
اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ کوفہ اور شام میںامام سجاد علیہ السلام کے کلام کی سیاسی خصوصیات بھی اسلامی شعائر سے وابستہ تھیں ، جب یزید نے اذان کے ذریعہ آپ کے کلام کو منقطع کرنے کا منصوبہ بنایا تو آپ نے فرمایا : ''محمد ھذا جدی ام جدک'' ؟ اے یزید ، اے یزید ! یہ محمد (جن کی رسالت کی گواہی دی جارہی ہے ) میرے نانا ہیں یا تیرے نانا ہے ؟اگر تویہ کہتا ہے کہ تیرے داد ہیں تو تُو جھوٹ بولتا ہے اور اگر میرے نانا ہیں (اور حقیقت یہی ہے) تو پھر ان کی اولاد کو تو نے کیوں قتل کیا ہے ؟ (٢٤) ۔ لہذا امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں بیان ہوا ہے : امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب ابراہیم بن طلحہ بن عبیداللہ نے امام سجاد علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہا : اے علی بن الحسین ! (اس جنگ میں) کون کامیاب ہوا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اگر یہ جاننا چاہتا ہے کہ کون (یزید یا امام حسین علیہ السلام) کامیاب ہوا ہے تو جس وقت نماز کا وقت پہنچ جائے ، اذان اور اقامت کہنا (اس وقت غور کرو کہ کون رہ گیا اور کون چلا گیا ہے ) (٢٥) (٢٦) ۔
امام سجاد علیہ السلام کا شام میں اپنے سیاسی بیانات سے علی علیہ السلام کی مخالفت کو ختم کرانا
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے قیام عاشورا میں امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات کو محفوظ کرتے ہوئے امیرالمومنین علی علیہ السلام کے فضائل و کرامات کو بیان کیا ، تاکہ آپ کے خلاف جو غلط پروپگینڈہ کئی سال سے چل رہا تھا وہ ختم ہوجائے (٢٧) لہذا آپ نے اپنے تاریخی خطبہ میں اس طرح فرمایا : میں اس شخص کا بیٹا ہوں جو رسول خدا کے سامنے دشمنوں سے دو تلواروں اور نیزوں سے جنگ کرتا تھا اور جس نے دومرتبہ ہجرت کی تھی (٢٨) ۔ اور دوبار بیعت کی تھی (٢٩) جس نے بدر و حنین میں (اسلام کے دشمنوں سے ) جنگ کی تھی اور جس نے پلک جھپکنے کے برابر بھی کفر اختیار نہیں کیا (٣٠) ... میں اس کا بیٹا ہوں جس نے سب سے پہلے خدا اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہا اور اسلام ظاہر کرنے میں سب سے آگے تھا ۔ میں دشمنوں اور مشرکوں کو نابود کرنے والے کا بیٹا ہوں . جو شخص بہت زیادہ روزے رکھنے والا، ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ اور بہت زیادہ نماز اور عبادت کرنے والا تھا (٣١) ۔ وہ رسول خدا کے دو نواسوں حسن اور حسین کے والد تھے ، جی ہاں وہ میرے دادا علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے (٣٢) ۔
اس عجیب وغریب خطبہ نے شام میں ہیجان پیدا کردیا اور بنی میہ کی حکومت کو متزلزل کردیا اور اس نے چالیس سال تک امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف جو پروپگینڈہ کیا تھا وہ خاک میں مل گیا اوریہ خطبہ آسمانی بجلی کی طرح سب جگہ منتشر ہوگیا (٣٣) ۔
امام سجاد علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ائمہ علیہم السلام نے انقلاب عاشورا کو زندہ کرنے کیلئے جس موثر ترین تدبیرسے استفادہ کیا ہے وہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ ہے (٣٧) امام سجاد علیہ السلام ، اپنی امامت کے دوران ہمیشہ عاشورا کا واقعہ بیان کرتے رہے اور اس مصیبت پر اس قدر روئے کہ آپ کا لقب ''بکائین عالم'' (بہت زیادہ گریہ کرنے والا) ہوگیا (٣٨) (٣٩) ۔
لہذا ہر مناسبت پر امام سجاد علیہ السلام کا گریہ عام لوگوں کے بیدار ہونے اور شہدائے عاشورا کے نام کو فراموش نہ کرنے کا سبب بن گیا (٤٠) ۔
اس مقالہ کے اختتام پر کہنا چاہئے کہ ایک طرف تو واقعہ کربلا اوربنی امیہ کے تشدد کا ماحول بہت سخت تھااور دوسری طرف اسیری اور شہادت خاندان اہل بیت علیہم السلام کی خستگی کی وجہ سے امام سجاد علیہ السلام میں ظاہری طور پر کوئی طاقت نہیں ہونا چاہئے تھی تاکہ اپنی بات کو صحیح طرح سے بیان کرسکیں (٤١) لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے استبداد یزیدی کے سامنے تسلیم نہ ہو کر کوفہ و شام میں بہترین خطبے بیان کرکے ان دونوں شہروںکے عوام کی فکر کو تبدیل کردیا اور اس جگہ کو خاندان بنی امیہ کے لئے نا امن کردیا (٤٢) ۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب یزید نے اپنی کامیابی کے نشے میں ایک عظیم مجلس منعقد کی تھی اور اس میں دوسرے ممالک کے سفیروں کو بھی دعوت تھی (٤٣) ۔