Wednesday 27 November 2024

14 August 2023

بہ مناسبت ولادت باسعادت امام رضا علیہ السلام

ولادت باسعادت امام رضا علیہ السلام مبارک ہو



آسمان ولایت و امامت کے آٹھویں خورشیدپُر نور حضرت امام ابو الحسن علی بن موسی الرضا علیھم السلام کی ولادت با سعادت گیارہ ذی قعدہ سن ۸۴۱ ہجری قمری میں ھوئی اور آپ نے کائنات کو اپنے وجود کے نور سے منور کردیا، آپ کے والد گرامی ساتویں امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام تھے اور آپ کی مادر گرامی کا اسم شریف نجمہ خاتون تھا۔

امام علیہ السلام کے فضائل و مناقب بے شمار ھیں اور آپ کے معجزات و کرامات بھی اتنے زیادہ ھیں کہ جن پر مخالفوں کو تعجب ھوتا ھے، یھاں تک کہ دشمنوں نے آپ کے تقوی اور آپ کی عبادت کا اقرار کیا ھے، چنانچہ مامون کہتا ھے:

”وہ علم و عبادت میں تمام لوگوں میں افضل ھیں“۔

آپ ھی کی ذات گرامی وہ تھی کہ جب مامون نے آپ کی علمی حیثیت اور بے مثال عظمت کو مجروح کرنے کے لئے دیگر مذاہب کے ساتھ مناظرہ رکھا تو آپ کے سامنے دیگر ادیان و مذاہب کی عظیم ہستیوں کو منہ کی کھانی پڑی، عیسائیت کی عظیم شخصیت جاثلیق، راس الجالوت یھودی، اور عمران صابی، امام علیہ السلام کے مقابلہ میں ناتواں ھوگئے اور انھیں آپ کے علم و عظمت کا اقرار کرنا پڑا۔

آپ کی ذات گرامی وہ تھی کہ جب آپ کے بیت الشرف میں دسترخوان بچھایا جاتا تھا تو اپنے غلاموں اور نوکروں کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے یھاں تک کہ اپنی شھادت کے دن بھی ان کو اپنے دسترخوان پر بٹھانا ترک نہ کیا۔

آپ ھی کی ذات گرامی تھی کہ جب سر زمین خراسان میں خشک سالی ھوئی تو آپ نے نماز استسقاء پڑھی اور اتنی بارش ھوئی کہ اس علاقے کی زمینیں سیراب ھوگئیں

جی ھاں، آپ جب شہر نیشاپور پہنچے اور بہت سے محدثین نے آپ سے حدیث بیان کرنے کی خواہش کی تو آپ نے اپنے آباءو اجداد کے حوالہ سے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے واسطہ سے خداوندعالم کی یہ حدیث قدسی بیان فرمائی:

”کلمة لا الہ الا اللہ حصنی، فمن دخل حصینی امن من عذابی“۔ یعنی کلمہ”لا الہ الا اللہ“ میرا مستحکم اور مضبوط قلعہ ھے جو شخص بھی اس میں داخل ھوگیا تو وہ میرے عذاب سے محفوظ ھے، اس کے بعد آپ روانہ ھوگئے لیکن آپ نے اپنے سواری کو روک کر یہ فرمایا: ”بشروطھا و انا من شروطھا“، لیکن اس کے لئے کچھ شرائط ھیں کہ جن میں سے ایک شرط میں ھوں“۔

اور اس طرح امام علیہ السلام نے شیعہ اعتقادکے بنیادی رکن یعنی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کیا۔

آخر کار جیسا کہ چمگادڑ نور میں باہر نھیں نکل سکتا [اور وہ نور کی تاب نھیں لاسکتا، اسی طرح مامون بھی آپ کی تاب نہ لاسکا اور اس نے صفر سن ۳۰۲ ہجری قمری میں آپ کو زہر دیدیا جس کی بنا پر آپ کی شھادت واقع ھوگئی۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے سلسلہ میں حضرات ائمہ علیھم السلام سے بہت سی روایات منقول ھیں اور ایرانیوں کا ایک افتخار یہ ھے کہ وہ اپنے مہربان امام کے لطف و کرم کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ھیں۔

امام رضا علیہ السلام کی چند نورانی حدیث:

۱۔اِنّ لِکلِّ امامٍ عَہدا فی عُنق اولیائھم و شیعتھم؛ و اِنّ من تمام الوفاءبالعہد و حُسن الاداءزیارةُ قُبورھم، فمَن زارھم رغبةً فی زیارتھم و تصدیقاً بما رَغبوا فیہ کانَ الائمَّتھم شُفعائھم یومَ القیامة۔

بے شک ہر امام، اپنے چاھنے والوں اور شیعوں پر حق رکھتا ھے، بالتحقیق بہترین اور مکمل طور پر اس عہد اور حق کا پورا کرنا یہ ھے کہ انسان ان کی قبور کی زیارت کرے ،پس جو شخص شوق کے ساتھ ان کی زیارت کے لئے جائے اور وہ ان پر ایمان رکھتا ھو اور ان کی تصدیق کرتا ھو، تو ائمہ علیھم السلام بھی روز قیامت اس کی شفاعت کریں گے۔

۲۔ نعم الشیءالہدیّة تُذہِب الضغائن من الصدور۔

تحفہ دینا کتنا اچھا ھے کہ جو دلوں سے دشمنی اور کینہ کو دور کردیتا ھے۔

۳۔ من فرّج عن مومن فرح اللہ قلبہ یوم القیامة

جو شخص کسی مومن کی مشکل آسان کرے تو خداوندعالم قیامت کے اس کے د ل کو شاد کردے گا۔

۴۔ رحم اللہ عبدا احییٰ امرَنا، فقلت لہ علیہ السلام (القائل ھو عبد السلام بن صالح الہرویُّ) : و کیف یُحیی امرکم؟ قال علیہ السلام: یَتَعلم عُلومَنا و یُعلّمُھا الناس، فاِنّ الناس لو علموا محاسنَ کلامنا لاتّبعونا۔

خدا رحمت کرے اس بندہ پر جو ھمارے امر کو زندہ رکھے، (عبد السلام بن صالح ہروی روایت کے راوی کہتے ھیں:) میں نے عرض کی: آپ (حضرات) کا امر کس طرح زندہ ھوتا ھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: انسان ھمارے علوم کو سیکھے اور لوگوں کو سکھائے ، بے شک کہ اگر لوگ ھمارے کلام کی خوبیاں سمجھ لیں تو ھماری پیروی کرنے لگیں۔

۵۔ یا بنَ شبیب! اِن سَرّک ان تکونَ معنا فی الدرجات العُلی من الجنان فاحزن لِحزننا و افرَح لفرحنا، و علیک بولایتنا، فلو انّ رجلا احَبَّ حجراً لحشرہ اللہ عزّ وجلّ معہ یوم القیامة۔

اے ابن شبیب! اگر تم چاہتے ھو کہ جنت کے اعلیٰ درجات میں ھمارے ساتھ رھو تو ھمارے غم میں غم مناؤ اور ھماری خوشی میں خوشی، اور تم پر ھمارے دوستی لازم ھے، کیونکہ اگر کوئی شخص کسی پتھر کو دوست رکھتا ھو تو خداوندعالم قیامت کے دن اس کو اسی پتھر کے ساتھ محشور کرے گا۔